جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

حیات محسن اعظم(صلی اللہ علیہ وسلم) ـــــــــــــــــــــــــــــــ پر ایک طائرانہ نگاہ

12/ربیع الاول =20/اپریل 572ء؁ صبح تقریبًا چار بجکر دس منٹ پر ظلمات کے سینے کو چیر کر آفتاب ہدایت نے اپنی تابناک شعاعوں سے اس کائنات کو روشنی ورعنائی عطاکی۔
ایک مہینہ والدہ مکرمہ پھر اپنے چچاابولہب کی آزاد کردہ باندی ثویبہ کا دودھ پیا۔
1/ ماہ کی عمر میں ......................دائی حلیمہؓ کے آغوش میں۔
2/ماہ کی عمر میں .........................ہاتھوں سے اشارہ کرنے لگے۔
3/ ماہ کی عمر میں ......................گھٹنوں کے بل چلنے لگے۔
4/ ماہ کی عمر میں ......................پاؤں پر کھڑے ہونے لگے۔
5/ماہ کی عمر میں ......................دیوار پر ہاتھ ٹیک کر ایک دو قدم چلنے لگے۔
  6/ ماہ کی عمر میں ........................چلنے کی طاقت آگئی۔
7/ ماہ کی عمر میں ....................تیز رفتاری پیداہوگئی
8/ ماہ کی عمر میں ......................دوڑ نے لگے۔
       9/ماہ کی عمر میں ..........................قوت گفتار آگئی۔
10/ ماہ کی عمر میں .......................فصیح اور دلچسپ گفتگوفرمانے لگے۔
11/ماہ کی عمر ........................(الف)باتوں کا دانشمندانہ  جواب دینے لگے (ب)تیر وکمان لیکر جنگل جانے لگے۔
1/ سال کی عمر میں ...................اپنی عمرسے بڑے لڑکوں کاجرأت مندانہ مقابلہ کرنے لگے اور اپنی بہادرانہ قوت سے ہوشیار بچوں کو شکست دینے لگے۔
2/سال کی عمر میں .......................آپ ﷺ کا دودھ چھڑایاگیا۔
3/ سال کی عمر میں .................(الف)جناب حلیمہ سعدیہ آپﷺ
کو لیکر جناب آمنہ کے سپردکرنے مکہ اآئیں،وباکے سبب جناب آمنہ نے ان کو واپس کردیا(ب)رضاعی بھائیوں کی معیت میں بکریاں چرانے جنگل جانے لگے۔
4/سال کی عمر میں ....................... پہلی مرتبہ شق صدر کاواقعہ پیش آیا۔
5/سال کی عمر میں ........................مادر مشفقہ جناب ”آمنہ“راہیئ ملک ِعدم ہوئیں۔
7/سال کی عمر میں ....................عبدالمطلب آپ ﷺ کو آشوب چشم کے علاج کے لئے ایک کاہن کے پاس تشریف لے گئے لیکن کاہن نے یہ کہہ کرعلاج سے انکار کردیاکہ میں اس عظیم المرتبت بچہ کے علاج کی اہلیت نہیں رکھتا۔
8/سال کی عمر میں ................جناب عبدالمطلب سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔
9/سال کی عمر میں .........................(الف)چچا ابو طالب کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کاسفر کیا(ب)بحیرنامی راہب نے انجیل کے ولے سے آپ ﷺ کے پیغمبر آخرالزماں ہونے کی پیش گوئی کی۔
10/سال کی عمر میں     .......................دوسری بار شق صدر کاواقعہ پیش آیا۔
15/سال کی عمر میں ......................حرب الفجار میں شرکت فرمائی۔
20/سال کی عمر میں  .......................حلف الفضول (مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ)ہواجس کے سربراہ آپ ﷺمنتخب ہوئے۔
23/سال کی عمر میں .....................(الف)حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ کی ہمرکابی میں بغرض تجارت نجد، یمن،بحرین،اور شام کاسفرفرمایا(ب)قوم کی جانب سے ”الصادق الامین“کا خطاب دیاگیا(ج)نسطوراراہب سے ملاقات ہوئی اس نے آپﷺ کو دیکھتے ہی آپﷺ کی نبوت کی پیش گوئی کی۔
25/سال کی عمر میں ......................حضرت خدیجہ طاہرہ۰۴/سالہ سے نکاح ہوا۔
30/سال کی عمرمیں .......................آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کی پیدائش ہوئی۔
35/سال کی عمر میں .................... (الف)خانہئ کعبہ کی تعمیر کے موقعہ پر حجر اسود کے نصب کرنے کے متعلق سے ہونے والی نزاع میں قدرتی طور پر تمام قبائل کی جانب سے حکممستحکم بنائے گئے(ب)سیدۃ النساء حضرت فاطمہ کی ولادت ہوئی۔
37/سال کی عمر میں            ....................غار حراء میں محو عباد ت ہوئے۔
40/ سال کی عمر میں ......................(الف)خلعت نبوت عطا کی

گئی(ب) یہودی عالم ورقہ بن نوفل نے آﷺ کی نبوت کی تائید وتوثیق کی (ج)حضرت ابوبکر ؓ،حضرت خدیجہ ؓ،حضرت علی ؓ،حضرت زید بن حارثہ ؓ،حضرت ام ایمن ؓ نے اسلام قبول کیا۔
41/سال کی عمر میں ......................(الف)خفیہ طورپر دعوت اسلام کاآغاز کیا(ب)پہلی اسلامی درسگاہ دارارقم کاقیام ہوا۔
44/ برس کی عمر میں ....................کھلم کھلادعوت اسلام شروع ہوئی۔
45/سال کی عمر میں .....................(الف)صحابہ نے حبشہ کی جانب دوبار ہجرت کی(ب)شاہ حبشہ نجاشی(اصحمہ)مسلمان ہوئے۔
46/سال کی عمر میں .....................(الف)حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ اور حضرت عمربن الخطاب ؓ مسلمان ہوئے(ب)کعبہ مکرمہ میں علی الاعلام نماز ادا کی گئی(ج)مسلمانو ں کی تعداد چالیس سے متجاوز ہوگئی۔
47سال کی عمرمیں ......................مسلمان شعب ابی طالب میں نظر بند کئے گئے۔
50/سال کی عمر میں ....................(الف)معاشرتی بائیکاٹ کاجاتمہ ہوا(ب)معجزہ شق القمر کاوقوع ہوا(ج)ام المؤ منین حضرت خدیجہ ؓ خواجہ ابو طالب کاوصال ہوا اسی سبب سے یہ سا ل عام الحزن قرار پایا(د)حضر ت سودہ بنت زمعہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ کی زوجیت میں آئیں (ہ)اپنے علام زید بن حارثہ کے ساتھ قبیلہ ئ بنی بکر اور قبیلہ بنی قحطان کی طرف دعوت اسلام کے لئے تشریف لے گئے (و)وعوت ایمان ہی کے لئے طائف کاسفر فرمایا،اہل طائف کی جانب سے سنگ باری کے باوجود ان کے لئے ہدایت ورا ہ یابی کی دعاء فرمائی۔
51/سال کی عمر میں ......................(الف)بیعت عقبہ اول ہوئی جس میں بنو خزرج کے چھ افراد نے اسلام قبول کیا۔(ب)معراج جسمانی سے مشرف ہوئے۔(ج)پانچ وقت کی نماز فرض کی گئیں۔(د)حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو دربار رسالت سے صدیق کالقب عطاہوا۔
52/سال کی عمر میں ......................(الف)بیعت عقبہئ ثانیہ ہوئی۔(ب)تقریبًاایک سو مسلمانوں نے ہجرت کی۔
53/سال کی عمر میں .....................(الف)اپ نے قوم کی امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کیں۔(ب)حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(ج)ام معبد کی بکری کے سوکھے تھن آپ ﷺ کے ہاتھ لگاتے ہی بھر گئے۔(د)مسجد قبا کی تعمیر کی گئی۔(ھ)یثرب (بیماری کاگھر)کا نام تبدیل کرکے ”مدینتہ الرسول“رکھا گیا۔(و)مسجد نبوی تعمیر کی گئی۔(ز) حضرت عائشہ ؓکی رخصتی ہوئی۔(ح)انصر ومہاجر ین کے درمیان مواخاۃ (بھائی چارگی)کی تقریب ہوئی۔(ط) مسلمانان مدینہ کی سر برآوردہ شخصیت حضرت ابو امامہ کاانتقال ہوا۔ (ی)اذان مشروع ہوئی۔
54/سال کی عمر میں ......................(الف)جہاد کیاجازت دی گئی۔(ب) حضرت سعد بن وقاصؓ نے مسلمانوں کی جانب سے سب سے پہلا تیر پھینکا۔ (ج)غزوہ بدر میں کفار کو شکست فاش ہوئی۔(د)حضرت حفصہ بنت عمر ؓآپ ﷺ کے نکاح میں آئیں۔(ھ)صدقہ ئ فطر واجب ہوا۔(و)حضرت عباس بن عبد المطلبؓ مشرف باسلام ہوئے۔ (ز)غزوہ ئ سویق واقع ہوا۔(ح)حضرت فاطمہ ؓ حضرت علیؓ کی زوجیت میں آئیں۔
  55/سال کی عمر میں ......................(الف)بنو قینقاع کو ان کی سرکشی و غداری کے سبب جلا وطن کیاگیا۔(ب)آپﷺ نے زینب بنت خزیمہ سے نکاح فرمایا۔ (ج) حضرت حسن بن علی ؓ کی ولادت ہوئی۔(د)شاتم رسول یہودی”کعب بن اشرف“محمد بن مسیلمہ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔(ھ)غزوہئ احد میں ایک حکم کی خلاف ورزی پر مسلمانوں کو بھاری ہزیمت اٹھانی پڑی،ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔(و)حضرت حمزہ شہید ہوئے اور سیدالشہداء کے خطاب سے سرفراز ہوئے۔(ز)جناب رسول کے سامنے کے دودندان مبارک شہید ہوئے۔ (ح)حضرت زینب بنت جحش ؓاورحضرت زینب بنت خزیمہ ؓوفات پائیں۔
56/سال کی عمر میں .......................(الف)آپﷺ نے مسلسل چالیس روز تک قنوت نازلہ فجرکی نماز میں پڑ ھنے کا اہتمام فرمایا(ب)بیر معونہ کے حادثہ میں ستر قراء صحابہ جاں بحق ہوئے۔(ج)حضرت خبیب بن عدی کو سولی دی گئی۔ (د)آپﷺ نے جناب ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے نکاح فرمایا۔ (ھ)غزوہئ بدر صغریٰ اور غزوہئ دومۃ الجندل واقع ہوا۔
57/سال کی عمر میں .......................(الف)غزوہئ بنو مصطلق،غزوہئ خندق اور جنگ بنو قریظہ کا وقوع ہوا۔(ب)حضرت جویریہ بنت حارث سے آﷺ نے عقد فرمایا۔(ج) مدینتہ الرسو ل یہودیوں سے پاک ہوا۔(د)رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ام المؤ منین حضرت عائشہ پر بہتان باندھا جس کی براء ت اللہ نے قرآن مقدس میں فرمائی۔(ھ)یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے جنگ بنو قریظہ ہوئی۔(و)گستاخ رسول ﷺ ”ابو رافع“کو عبد اللہ بن انیس ؓنے واصل جہنم کیا۔(ز)عمر بن عاص اور خالد بن ولید ؓ مشرف باسلام ہوئے۔(ح)حکم حجاب نازل ہوا۔
58/سال کی عمر میں .....................(الف)اہل عرینہ کی بد عہد ی اور ارتداد کا واقعہ پیش آیا۔(ب)صلح حدیبیہ ہوئی۔(ج)بیعت رضوان ہوئی۔(د)خیبر فتح ہوا۔(ھ) حضرت صفیہ بنت حیی سے عقد جرمایا۔(ز)غزوہئ فدک ہوا۔(ح) گدھے کا گوشت حرام قراردیا گیا۔(ط)متعہ کی ممانعت ہوئی۔(ی)زینب بنت الحارث سے آپ ﷺنے نامی یہودن نے جناب رسو ل ﷺ کی دعوت کرکے زہر آلود گوشت کھلانا چاہالیکن گوشت مے آﷺ کو خود مطلع کردیا۔(ک)کفار نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی۔(ل)   ”ہرقل“شاہ روم کی جانب حضرت دحیہ کلبیؓ،”پرویز“ کسریئ فارس کی جانب حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ،والیئ حبش ”نجاشی“کی جانب حضرت عمر بن امیمہؓ،شاہ مصر و اسکندریہ”مقوقس“کی جانب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ،شاہ بحرین”منذر بن ساوی“ کی جانب حضرت علاء بن الحضرمی ؓ،بادشاہان عمان ”جیفر بن جلندی“اور”عبد بن جلندی“کی جانب حضرت عمربن العاصؓ،حاکم یمامہ ”ہوذہ بن علی“کی جانب حضرت سلیط بن عمرو عامری،دمشق کے حاکم”حارث بن الشمر غسانی“ کی جانب حضرت شجاع بن وہبؓ،یمن کے بادشاہ”حرث بن عبد کلال حمیری“ کی جانب حضرت مہاجربن ابی امیہ مخزومیؓکے ہاتھوں دعوت اسلام کے لئے مکتوبات روانہ کئے گئے۔
59/سال کی عمر میں ......................(الف)صلح حدیبیہ کے موقع پر متروکہ عمرہ کی صحابہؓ کے ساتھ قضاء فرمائی۔(ب)آپ ﷺکا عقد حضرت میمونہ بنت الحارث عامریؓ سے ہوا۔(ج)غزوہئ ذات الرقاع اور جنگ موتہ کا وقوع ہوا۔(د)مسجد نبوی کے منبر کی تعمیر ہوئی۔(ھ)حنانہ(کھجور کا وہ تنا جس پر آپ  ﷺ بوقت خطبہ ٹیک لگایا کرتے تھے۔)آپ ﷺ کے فراق میں اونٹ کی طرح بلبلا کر رویا۔(و)آپ ﷺکی باندی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی۔(ز)آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ نے شہادت پائی۔
60/سال کی عمر میں ......................(الف)غزوہئ ذات السلاسل،غزوہئ حنین اور غزوہئ طائف کا وقوع ہوا۔(ب)ابو سفیانؓ نے اسلام قبول کیا۔(ج)مکہ فتح ہوا۔(د)کعبہئ مکرمہ ۰۶۳/بتوں سے پاک کیا گیا۔(ھ)انیس یوم مکہ میں قیام فرما کر مدینہ کی جانب مراجعت فرمائی۔
61/سال کی عمر میں ......................(الف)بنو تمیم فن ادب(نثر و نظم) میں مقابلے کی غرض سے مدینہ آئے،مسلمانوں کی طرف سے ان کے نثرکا جواب حضرت ثابت بن قیسؓ نے دیا اور نظم میں حضرت حسان بن ثابتؓ نے ان کے مقابل اپنا کلام پیش کیاجسے سن کر بنو تمیم نے اپنے شکست کا اعتراف کیااور مشرف باسلام ہوئے۔(ب)سخاوت و عطا کے لئے مثالی شخص حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم ؓ نے اسلام قبول کیا۔(ج)غزوہئ تبوک پیش آیا۔(د)منافقین کی مشورہ گاہ مسجدضرار کو نذر آتش کیا گیا۔(ھ)وفود کے کثرت آمد کے باعث اس سال کا نام”سنۃ الوفود“ قرار پایا۔
62/سال کی عمر میں ......................(الف)آپ ﷺ نے پہلا اور آخری حج کیا،تقریباََ ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ کرام کے سامنے معرکۃالآراء خطبہ دیا۔
63/سال کی عمر میں ......................(الف)حضرت ابو بکرؓ کے ذمہ امامت سونپی گئی۔(ب)مسیلمہ کذاب سے مراسلت ہوئی۔(ج)آفتاب نبوت اس جہان فانی سے روپوش ہو گیا۔
فصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ و بارک و سلم
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:فروری 2012ء

علم الانسان بالقلم

قلم کی اہمیت اور اسکی قدرو قیمت کے اندازہ کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایجادِ عالم سے پچاس ہزار سال قبل قلم کی تخلیق خوداپنے دست قدرت سے فرمائی ہے۔ حضرت علیؓ کافرمان ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان چیزوں کا علم دیاجن کو وہ نہیں جانتے تھے ان کو جہل کی اندھیری سے نورِعلم کی طرف نکالااور علم کتابت کی ترغیب دی کیو نکہ اس میں بے شمار اور عظیم منافع ہیں جنکا اللہ کے سوا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا“ حضرت قتادہؒ نے فرمایا”قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر یہ نہ ہوتانہ کوئی دین قائم رہتااور نہ دنیاکے کوئی کاروبا ر درست ہوتے۔“
یقینًاقلم دنیاکا وہ شاہِ جہاں ہے کہ اس کے فوائدومنافع کا شمار ممکن نہیں،اس کے توسط سے اپنی پوشیدہ صلاحیتں دوسرے کے اندر بآسانی منتقل کی جاسکتی ہیں اسکا اثردیرپا اور دوررس ہوتاہے،اس کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات (جو مرور ایام کے باعث اذہا ن وقلوب سے محوہوچکے ہوتے ہیں)کودیکھ کربغیرکسی کلفت کے یاد کیاجاسکتاہے۔ اگرقلم نہ ہوتودین ودنیاکے سارے کام مختل ہوجائیں۔
اسی ذریعہ کواپناکر آج اعداء اسلام اس پاکیزہ اور مقدس مذہب پر جو امن وسلامتی کا سب سے بڑاعلم بردار ہے اس پرطرح طرح کے الزامات واتہامات کی یورش کررہے ہیں اور اسے ایک سفاک،دہشت گرد،ظالم ترین اوربیہودہ مذہب کے طورپرپیش کرکے پوری دنیا کے آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اغیار توکیا خود مسلمان بھی غلط فہمیوں کے شکارہوتے چلے جارہے ہیں۔
اسی قلم کی بدولت بے شمار ہستیاں اپنے علمی سرمائے کوآنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرکے سداکے لئے دعاؤ ں کامحور بن گئیں۔ نہ جانے اس دنیا ئے آب وگل میں کتنے علم وفن کے آفتاب وماہتاب نے جنم لیا جن کی لیاقت و قابلیت کاڈنکاچہار دانگ عالم بجا،ان کے بحر علم سے بے شمارتشنگان علوم نے اپنی پیاس بجھائی،ان کے ملفوظات وفرمودات سے متاثرہوکر لاتعداد سیہ رو اور سیہ قلب انسانوں کو پاکیزگی اور معرفت کا نور ملالیکن انکے علم وفن کاسارااثاثہ انکے ساتھ ہی زیرزمین دفن ہوگیااور بقاء ودوام حاصل ہواتو انہی پاکیزہ ہستیوں کوجنہوں نے دور اندیشی اور تفکر وتدبر سے کام لے کرقلم وقرطاس کا استعمال کیااور اپنے تجربات و معلومات کو کتابوں کی صورت میں محفوظ کرگئے۔ان کے ذخیرہئ علم سے اہل علم نے استفادہ کیاجس کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔اسی قلم نے مظلوم وشکست خوردہ قوم کے حوصلوں کوکچھ اس طرح مہمیز دیاکہ انہوں نے دشمنوں کوناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیااورانہیں شکست کے کنوئیں میں اتار کر وہ تمام حقوق حاصل کرلئے جن سے وہ عرصہئ دراز سے محروم تھے۔
       خود ہمارے ملک ہندوستان کی جنگ آزادی میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ”الہلال“مولانا محمد علی جوہرؒ کے’’کامریڈ“مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کے”صدق جدید“ کاکرشمہ تھاکہ اس نے شمع آزادی کے پروانوں میں وہ روح پھونکی اور ولولوں کو وہ بالیدگی عطاکی جو ہمارے نگاہوں سے پوشیدہ ومخفی نہیں، اسی کو ابو حاتم بستی نے اپنے دواشعار میں یوں پیش کیاہے:
اذا اقسم الابطال یوماََ بسیفہم
و عدوہ مما یکسب المجد والکرم
کفی قلم الکتاب عز او رقعۃ
مد الدہر ان اللہ اقسم بالقلم
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:نومبر2010ء

عبث ہے یونہی کام یابی کی چاہت!!

خواہشیں کہاں جنم نہیں لیتیں ...؟تمناؤں کے گلاب کہاں نہیں کھلتے...؟سپنے بننے کاحق کسے نہیں ہوتا...؟آرزؤ ں کا تاج محل کون تعمیر نہیں کرتا...؟”کامیابی“ کی چاہت کسے نہیں ہوتی...؟
وہ کوئی طالب علم ہو یاکسی کمپنی کا ملازم...زمین کے آغوش میں پوشیدہ معدنیات کے ذخائر تلاش کرنے والے افراد ہوں یا سیاروں کی وادی کے مسافر...کسی دفتر میں ملازمت کا امیدوار ہو یا کسی مقابلہ جاتی امتحان میں شریک شخص...اپنی تجارت کو فروغ دینے میں مصروف کوئی تاجر ہو یااپنی زراعت میں منہمک کوئی کاشت کار...ہر کوئی ”کامیابی“کا خواہاں ہے۔
یہ تگ و دو...یہ بھاگ دوڑ...جاں گسل کوششیں ...جی توڑ محنتیں ...پے پناہ مصروفیات...ہزارہا مشغولیات...کیا ان سب کا مقصد ”کامیا بی“کے سوا اور کچھ بھی ہے...!؟
ہر کسی کی محنت و جفا کشی کا سبب...سعی پیہم اور جہد مسلسل کی وجہ...انتھک کوششوں اور جدوجہدکا باعث”کامیابی“ کی آس ہی تو ہے...!!
اسی کی چاہت تو اسے تھکنے نہیں دیتی...اسی نے تو بوڑھوں کو جوان اور رعنا بنا رکھا ہے...اسی آس نے تو ضعیف کاندھوں کو بھی بوجھ سہارنے کی صلاحیت عطا کی ہے...!
چلتی پھرتی زندگی ہمارے سامنے ہے...کچھ لوگ بے حد کامیاب ہیں کچھ حد درجہ ناکام...کچھ کے در کی گدائی کو بھی باعث سعادت تصور کیا جاتا ہے تو کچھ کو قابل التفات اور لائق توجہ بھی نہیں سمجھا جاتا...کسی کی جوتیوں میں جگہ مل جانے کو خوش بختی سے تعبیر کیا جاتا ہے توکسی کو حرف مکرر اور بار گراں گمان کیا جاتا ہے...کسی کی نا ساز طبیعت کی اطلاع پاتے ہی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے تو کسی کو ایک تیماردار بھی میسر نہیں ہوتا...
ایسا آخر کیوں ...؟ ان کے عز و افتخار کا سبب بھی تو یہی ”کامیابی“ ہے۔
کامیاب افراد کی مدح و توصیف میں ہم کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے...ان کی ستائش میں ہم زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہتےہیں ...انکے فلاح و بہبود کے تذ کرے ہماری نوک زبان پہ رہتے ہیں ...ان کی رفعت و کمال کے ذکر سے ہماری مجلسیں معمور رہتی ہیں ...اٹھتے بیٹھتے ہم ان کی مدحت کے زمزمے گنگناتے رہتے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کی کامیابی کا سبب ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے...اور ہماری نگاہوں سے مخفی ہے...
ہم بخوبی اس سے واقف ہیں کہ اس ”کامیابی“ کے لئے انھیں بے شمار طویل راتوں کی نیند قربان کرنی پڑی ہے...نہ معلوم کتنی آرزؤں کا گلا گھونٹنا پڑا...خدا جا نے کتنی خواہشات کو جنم لیتے ہی دفن کر دیاگیا...پتہ نہیں کتنی تمناؤں کا سر ابھارتے ہی قلع قمع کر دیا گیا...
جس کے نتیجہ میں انھیں لوگوں کی عنایتوں ...اپنوں کی محبتیں ...غیروں کی نوازشیں ...صغار کی حرمت و عزت...اور کبار کی  شفقت نصیب ہوئی۔
لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہمیں یہ قطعی طور پر یہ زیب نہیں دیتاکہ ہم کائنات کے اعظم و اثمن سر مائے کو(جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ”اگرآپ وقت کو ضائع کر رہے ہیں تو یاد رکھئے وقت بھی آپ کو برباد کر رہا ہے“) ضائع کر کے...بغیر کچھ کئے...بنا کسی محنت و جہد کے...ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور فوز و فلاح کے منتظر رہیں تو پھر اسے احمقوں کی جنت میں
رہنے کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جاسکتاہے...!!؟                                        
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:مئی 2011ء

ہائے کسے سونپ دیا فیصلہء سود وزیاں ہم نے۔۔!!؟

وقت بھی آخر کس قدر تیز رفتار ہے.....!!؟دن ہفتوں  میں .....ہفتے مہینوں میں .....مہینے برس میں .....تبدیل ہوتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے.....!؟
انسان کی زندگی بھی تو سفر کی مانند ہے.....جوہر لمحہ اسے اسکے  منزل کی جانب لئے چلی  جا رہی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے.....۱۱۰۲ کا آغاز بڑے ہی آن بان سے سے ہوا تھا..... لیکن وہ بھی دیکھتے ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا.....اور شمسی کلینڈر کے نئے سال ۲۱۰۲ کا استقبال کیا جارہا ہے۔
چاروں جانب جشن کا ماحول ہے.....آسمان پر آتش بازیوں کے رنگین نظارے دکھ رہے ہیں ..... نئے سال کے استقبال میں تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے.....گریٹنگ کارڈس کے تبادلے ہو رہے ہیں .....موسیقی کی بے ہنگم آواز سے کان دھرنا مشکل معلوم ہو رہا ہے.....ایک دوسرے کو مبارکبادیاں پیش کی جا رہی ہیں ....اس جشن میں صرف ”وہ“ نہیں بلکہ”ہم“ بھی شریک ہیں .....یہ سوچے بغیرکہ آخر یہ جشن و طرب کیوں .....!؟یہ اہتمام کس لئے.....؟؟
کیا ہم نے سال گزارکر کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے!؟.....یا کوئی منزل سر کر لی ہے!!؟.....یا پھراس سے ہماری زندگی کی راہیں روشن ہو گئیں .....اور یک بیک ہم نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کرلیں ہیں؟؟
ہائے یہ غلا می بھی کیا چیز ہے.....؟؟ فائدہ و نقصان.....نفع وضرر.....سود وزیاں تک کے احساس کو زائل کر دیتی ہے.....
یہ غلامی انسان کو آہنی زنجیروں میں قید تو نہیں کرتی...لیکن اسکے عقل و شعور پر قابض رہتی ہے....اسکے احساسات وخیالات پر حکمرانی کرتی ہے......اسے اپنے اشاروں پر نچاتی رہتی ہے.....یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی.....
یہ اسیری ہی تو ہے کہ وہ عظیم نعمت جسکے متعلق کسی نے کہاکہ:
”وقت  برف کی مانند ہے .....اگر آپ چاہیں تو اسکا استعمال کریں .....ورنہ اسے یونہی ضائع ہونے کیلئے چھوڑ دیں“تو کسی نے کہاکہ”اگر آپ وقت کو برباد کر رہے ہیں .....تو یاد رکھئے!وقت بھی آپ کو برباد کر رہا ہے۔“اسی وقت کو کھو کر.....یعنی خود کا نقصان کر کے..... خسارہ اٹھا کر.....پونجی ضائع کرکے.....متاع گرانمایہ لٹا کر.....سرمایے کو ڈبو کر.....اپنا احتساب کرنے.....سرزد گناہوں کو خیر آباد کہنے.....ان گھڑیوں پر افسوس کرنے جو رائیگاں گذر گئیں .....ان لمحات پر رونے جن میں ہم نے اپنی آسائش کی خاطر دوسروں کو کلفت پہنچائی.....ان اوقات پر پشیمان ہونے جن میں خالق کی معصیت کا ارتکاب کیا گیا.. ہم جشن وطرب.....مسرت وخوشی.....اور فرحت وشادمانی کا اظہار کرتے ہوئے      .....مبارکبا د دینے اور وصول کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ ہمارا طریق تو نہیں .....ہمارے آئیڈیل کی یہ تعلیمات تو نہیں .....یہ صدیق و عمر کا ڈھنگ تو نہیں .....یہ ہماری منزل تک رسائی کی راہ تو نہیں .....یہ راستہ تو ہمیں کہیں اور لئے جارہاہے.....یہ تو قعر مذلت میں پہنچا  دینے والی راہ ہے..... یہ تو انکی راہ ہے جنکے با رے میں قرآن نے  خبردار کر تے ہوئے کہا:
”اور تم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے یہود اور نہ ہی نصاری یہان تک کہ تم انکی پیروی کر لو!!“(البقرہ:۰۲۱)
ہائے ہم کسے راضی کر رہے ہیں .....!؟کسکے سرور کے اسباب پیدا کر رہے ہیں!؟.کسکے طرز کو اپنا کر فخر کا احساس کر رہے ہیں!؟ہم اپنا آئیڈیل اور رہنما کسے تسلیم کر رہے ہیں .....!؟؟
انہیں جنہوں نے ہمارے لئے  چہار جانب بربادی کے دہانے کھول رکھے ہیں .....جو ہمیں تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے.....!ہماری بربادی ہی جنکی سب سے بڑی کام یا بی ہے.....!!
جنہوں نے    ع   روح محمد اسکے بدن سے نکال دو
کے شیطانی منصوبے کو پورا کرنے میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے.....!!؟
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں .....خودکو پہچانیں .....اپنی حیثیت کو جانیں ..... اپنے مقام سے واقف ہوں ..... اوریک بار پھر یہ ثابت کر دیں کہ
                خاص ہے تر کیب میں قوم رسول ہاشمی
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جنوری 2011ء

مولانامحمدرحمت اللہ:آغوش مادر سے سائبان مادر علمی تک

اس عالم ناپا ئیدار میں ہر لمحہ اور ہرگھڑی  انسانوں کے حیات وممات اور پیدائش ووفات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے خواہ وہ ولی ہو یا نبی،شقی ہو یا سعید،یہ قانون سب پر یکساں طور پر نافذ ہے،کوئی اس سے خوش ہو یا ناراض،خوف زدہ ہو یا نڈر،علم کا بحر ذخار ہو یاجہالت کا مجسمہ سب کو بہر حال اس سے سابقہ ہے البتہ روئے زمین پر بعض بندگان خدا ایسے بھی ہوتے ہیں جنکے چلے جانے کے بعد بھی فضا انکے خوشبو سے معطر رہتی۔ہے اس دنیائے فانی میں ایسی قابل ذکر شخصیات بھی ہوتی ہیں ہیں جو برسوں گزر جانے کے بعد بھی اپنے کارناموں اور عظیم قربانیوں کے باعث لوگوں کے درمیان سدا زندہ اور تابندہ رہتی ہیں۔ایسی ہی قابل قدر او  ر مؤ قر ہستیوں میں سے ایک مایہ ئناز ہستی مولانا رحمت اللہ صاحب ؒکی بھی ہے جنہوں نے:
   پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو
یہی وجہ ہے کہ آج بھی حضرت والا کی ذات ساکنان چتراکے لئے باعث فخر و سعادت ہے۔ ان ہی کی ذات بابرکات کی قربانیوں کانتیجہ ہے کہ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی چترااور اسکے اطراف میں ایمان ویقین کی جو چمک نظر آرہی ہے وہ آپ ہی کے شمع ایمانی کا پرتو ہے:
زمانہ ہو گیاگزراتھاکوئی بزم انجم سے
غبارِراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
آپ بچپن سے ہی نیک طبیعت‘پاک طینت اور پاکیزہ اطوار و عادات سے متصف تھے۔”پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دِکھ جاتے ہیں“یا”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“جیسی کہاوتیں آپ کی ذات بابرکات پر پوری طرح فٹ آتی تھیں۔ابھی طفولیت ہی تھا کہ علمی حلقوں اور دینی مجلسوں کی سحرانگیزی اور قوت کشش نے آپ کواپنی جانب متوجہ کرلیاتھا۔بزرگوں کے مجالس اور وعظ کے محافل میں آپ نہ صرف پوری پابندی اور مستعدی کے ساتھ شرکت فرماتے بلکہ ان کی خدمت وصحبت سے دو جہاں کی کام رانی وبامرادی کی دعائیں اپنے دامن میں سمیٹ کر واپس ہوتے۔
آپ کی ولادت باسعادت  1313ھ=1895ء؁کو رانچی میں ہوئی۔آپ کے والد مکرم کانام رمضان علی اور جد محترم کانام داؤد علی تھا۔آپؒ نے ابتدائی تعلیم کاآغاز  حافظ جان احمد خاں سہسرامی ؒ کے پاس کیا، ابھی آپ ؒ پند رہ پارے ہی حفظ کر پائے تھے کہ مولانا قادر بخش سہسرامی ؒ بغرض واعظ رانچی تشریف لائے اس موقع پر لوگ جب مصافحہ کرنے لگے تو آپ ؒ نے ازدحام سے بچنے کی خاطر اخیر میں مصافحہ کرنا مناسب سمجھاجب تمام لوگ مصافحہ سے فارغ ہوگئے اور آپؒ مصافحہ کے لئے آگے بڑھے تو آپؒ کو دیکھتے ہی انہوں نے بے ساختہ فرمایا ”تم نے بہت دیر کر دی،اب آئے ہو تو میرے ساتھ ہی رہنا“   حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے متعارف بھی نہ تھے لیکن:
       ع  ولی راولی می شناسد
چناں چہ آپؒ انکے ساتھ ہولئے۔جب رات کو آپ ؒنیند کے آغوش میں چلے گئے تو انہوں نے آپؒ کی آنکھ، زبان وغیرہ کو دیکھا اور صبح کو آپؒ سے پوچھا”کیاکرتے ہو“آپؒ نے جواب دیاقرآن پاک حفظ کر رہاہوں۔تو انہوں نے فرمایا”بیٹے حفظ تو کرلوگے لیکن بیکار ہوجاؤگے“یہ سن کر آپؒ نے پوچھا”کیا حفظ کر ناچھوڑدوں؟“یہ سوال آپؒ نے تین دفعہ کیاتو وہ خاموش رہے لیکن جب چوتھی دفعہ آپؒ نے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا”تم مجھے مسلمان سمجھتے ہو یانہیں؟ کیاکوئی مسلمان کسی کو قرآن پاک کی تعلیم سے منع کرسکتا ہے؟“۔
اس کے چندہفتے بعد ہی رانچی میں مولانا شریف الحق دہلویؒ کی تشریف آوری ہوئی۔آپؒ نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی بعینہ وہی فرمایاجو مولانا قادر بخش سہسرامیؒ نے فرمایاتھا۔چنانچہ آپؒ نے دونوں بزرگوں کے کہے جانے پر فارسی شروع کرنے کاارادہ فرمالیاپھر چند مہینہ بعد ہی رمضان کریم میں دونوں بزرگوں نے بذریعہئ خط طلب فرمایا‘ دونوں خطوط آپؒ کے والد مکرم کوہی مل گئے۔انہوں نے گھرمیں تذکرہ کیاتو صلاح ومشورہ کے بعد یہ طے ہواکہ اتنی دور جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ آسنسول میں ایک مدرسہ قائم ہوا ہے وہاں بھیجا جاسکتاہے۔
عید کادن تھاآپ ؒ والد مکرم کی دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے جسکے سبب عید کی نماز ادانہ کرسکے اس واقعہ سے آپؒ اس قدر ملول خاطر ہوئے کہ عید ہی کے دن رخت سفر باندھااورآسنسول کے لئے روانہ ہوگئے جہاں سے آپ باضابطہ راہ تعلم پر محو سفر ہوئے اور اساتذہ ئ کرام کے سایہئ شفقت و سائبان محبت کے تلے حصول علم کے منازل طے کر کے حصول علم کی تکمیل کی اور سند فراغ حاصل کیا۔
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جون 2010ء

عورتوں کا محافظ کون؟اسلام ۔۔۔ یا ۔۔۔ مغرب؟؟؟

آج کے اس مہذب دورمیں عورتوں پرظلم و ستم کا پھر وہی لامتنا ہی سلسلہ شروع ہوچکاہے۔جوآج سے چودہ سوسال قبل تھامگران دونوں کے مابین  اتنا فرق ضرورہے کہ کل انکااستحصال انہیں ذلیل،کمتر اورکمزور کہہ کر کیا جارہاتھااورآج انکااستحصال انہیں آزادی اورترقی دینے کے نام پرکیا جارہاہے۔کل دوروحشت وبربریت میں انکا قتل وحشیانہ طریقہ پر کیا جا تاتھا۔اورآج اس مہذب وترقی یافتہ دور میں انکا قتل     مہذب طریقہ پرکیاجارہاہے۔جولوگ آزادیئ نسواں کے علم بردارہیں انہیں نہ عورتوں کے حقوق سے کوئی مطلب ہے اورنہ انہیں انکی آزادی سے کوئی دلچسی ہے۔بلکہ یہ عورتوں کوہرے باغ دکھلا کرانکے عفت وعصمت سے کھلواڑ کرنا اور انہیں کھلونابناناچاہتے ہیں۔ آزدایئ نسواں کے علمبر داراوراسکادم بھرنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن مقدس نے مغضوب وضالین کہاہے کیونکہ یہ گمراہ لوگ ہیں یہی وجہ ہیکہ انہیں ہر شیئ الٹی نظرآتی ہے۔ انکے یہاں روشنی کا نام تاریکی اورجنوں کانام خردہے۔انہوں نے عورتوں کوترقی دینے،مردوں کے دوش بدوش چلانے اورانہیں اعلی مناصب دلانے کے نام پرانکے ساتھ کس قدرفراڈ کیاہے اسکے اندازہ کیلئے ہم چندلوگوں کے چشم دیدہ مشاہدات پیش کرنا چاہیں گے۔
”میں نے یورپ میں ایک فیکٹری میں دیکھا کہ سامان اٹھا کرایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کیلئے چارلڑکے تھے،وہ بھی بوریوں کوکمرپر رکھ کر لے جارہے تھے اوردولڑکیاں تھیں،انہوں نے بھی کمرپرا پنی اپنی بوری اٹھائی ہوئی تھی اورچل رہی تھیں تو میں نے اس فیکٹری کے منیجرسے کہا کہ یہ کیاNon senceہے کہ آپ نے لڑکیوں کویہ کا م دے دیا وہ کہنے لگا:جی اگر یہ کام نہیں کریں گی کھائیں گی کہاں سے؟“(سکون دل،ص۶۸.۷۸از:پیر فقیر ذالفقاراحمد نقشبدی)
  ؔؔ”مغر بی معاشرہ میں جتنے نچلے درجہ کے کام ہیں وہ تمام تر نہ سہی تو بیشتر ضرور،عورت کے حوالے ہیں۔اس دوران ہمیں دسیوں ہوٹل میں جانے کااتفاق ہوا،وہاں مردبیرا شاذو نادرہی نظرآیا، عام طور  سے  یہ خدمت عورتوں کے سپردہے۔دوکانوں پرسودابیچنے کا کام بھی اکثروبیشترعورتیں ہی کرتی ہیں۔اورٓیہ نہیں کہ گھر سے باہر کے یہ فرائض انجام د ینے کے بعدعورت کو امورخانہ داری سے چھٹی مل گئی ہو،گھرکی دیکھ بھال اور بچوں کی نگہداش بھی عام طورسے اسی کے سپردہے۔“(جہان دیدہ ص۹۴۱از:مفتی محمدتقی عثمانی)                                                                        دیکھا آپ نے!اسلام نے انہیں شمع محفل بنانے کے بجائے چراغ خانہ بناکر کیسا احسان عظیم فرمایا ہے۔لیکن جب انہوں نے قانون فطرت کی خلاف ورزی کی توپھردنیا میں بھی ایذاء ومصائب کومول لے لیااور آخرت کی تبا ہی وبربادی کا توکہنا ہی کیا
                                 ع  نہ خدا ہی نہ وصا ل صنم
 لہذا:عورتوں کو چاہیے کہ ان کے بہکاوے میں ہرگز ہرگزنہ آئیں جو یہ کہ کر انھیں ورغلانے اور بہکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قید اورغلامی کی علامت ہے کیونکہ ساری دنیاکا یہی اصول ہیکہ جو شئی قیمتی و گراں مایہ ہوتی ہے اسے پنہاں وپوشیدہ رکھاجاتا ہے یہی وجہ ہیکہ اسلام نے انھیں پوشیدہ و مخفی رکھنے اور رہنے کی ہدایت کی ورنہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اسلام انھیں بے وقعت،بے مایہ،ذلیل،غلام اور قیدی سمجھتا ہے۔اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں عورتوں کا حقیقی محافظ کون؟اسلام...یا...مغرب..؟!
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:مارچ 2010

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

ایک سوال ۔۔۔ اور ۔۔۔ اہم سوال

آج ہر طرف سے اسلام پر یلغار کی جارہی ہے،ہر سمت اسلام کے خلاف سازشیں رچی جا رہی ہے،چہار جانب اسلام کو بد نام کر کی کوشش کی جا رہی ہے، آج دنیاکے ہر خطے میں مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے، دین اسلام کے قوانین کے ساتھ ٹھٹھاکیا جارہاہے، مسلمانوں کودہشت گرد بتلایا جا رہاہے،سر ور کشورﷺکی مقدس ذات کو مطعون و مقذوف کیاجارہاہے، مگر جب آپ ان مظالم کے وجو ہ واسباب پر غور کرینگے تو آپ کو مجبور ہو کر یہ کہنا پڑے گا کہ
           ع  ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
یہ ایک حقیقت اور نا قابل انکار صداقت ہے کہ یہ حا لات ہماری بے اعتنائی اور لا پرواہی کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور نبھانے کی کوشش نہیں کی،سرور کائنات ﷺ جو تمام کائنات کیلئے رحمت بن کر آئے تھے انکے پیغام کو ہم نے یہ سوچ کر یہ عام نہیں کیاکہ وہ تو ہمارے نبی ہیں، بھٹکتی ہوئی انسانیت کو ہم نے صراط مستقیم پر لانے کی فکر نہیں کی اور اعدائے اسلام نے مذہب اسلام کی جو غلط شبیہ پیش کی ہے اور اسکے بارے میں جن غلط فہمیوں کو پھیلا رکھاہے ہم نے ان غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش نہیں کی یہی وجہ ہے کہ لوگ اسلام سے ناواقف ہیں اورعدم واقفیت کے سبب اسلام کے نام سے خوف کھاتے ہیں۔لہذا اب مناسب معلوم ہوتا ہیکہ نو مسلمین کے وہ تأثرات جو انکے دولت اسلام سے سرفراز ہونے کے قبل تھے نقل کر دوں تاکہ آپ کو اندا زہ ہو سکے کے اعدائے اسلام میں مذہب اسلام کے بارے میں کس قدرمن گھڑت اور بے بنیاد باتیں پھیلا رکھی ہیں
 ”اسلام اور مسلمانوں سے مجھے سخت نفرت تھی کیونکہ میری معلومات کے مطابق اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیّاش،عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنیمخالفوں کو زندہ جلادینے والے لوگ تھے“(سسٹر امینہ جہاں،امریکہ)
”میرے ذہن میں اس وقت بس اتنی بات تھی کہ مسلمان پرانے زمانے کی داستانوں میں یقین رکھنے والی ایک بے حقیقت اور پسماندہ قوم ہے“(پرمود کیسوانی/محمد قاسم،گوہاٹی)
”بچپن سے ہم لوگ یہ سنتے آرہے تھے کہ مسلمان ہندؤں سے نفرت کرتے ہیں، وہ بھارت سے دلی لگاؤ نہیں رکھتے، وہ بے انتہا کٹر اور متشدد ہوتے ہیں،خون خرابہ کرنا انکی گھٹی میں بسا ہواہے، کسی کو بھی جان سے مار دیناانکے بائیں ہاتھ کا کام ہے، وہ انتہائی گندے رہتے ہیں انہوں نے بھارت ماتا کا بٹوارہ کروایا ہے ان پر کبھی بھی وشواس(یقین)و اعتماد نہیں کرنا چاہئے،انکے یہاں عورتوں کی کوئی عزت و اہمیت نہیں ہے، وہ خوب بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ بھارت میں انکی آبادی ہندؤں سے بڑھ جائے اور وہ بھارت پر قبضہ کرلیں،مسلمان ہر کام ہندوؤں کے بر عکس کرتے ہیں، ہم لوگ پورب کے سمت پوجاکرتے ہیں تو وہ پچھم کی طرف،ہم لوگ بائیں سے دائیں لکھتے ہیں تو وہ دائیں سے بائیں، ہم لوگ سوریہ(سورج)دیوتاکی پوجا کرتے ہیں تو مسلمان چاند پر اپنے خداکو براجمان مانتے ہیں،ہم لوگ گاؤ ماتا کی پوجا کرتے ہیں تو ہمیں دکھ دینے کیلئے وہ اسے کاٹ کر کھا جاتے ہیں،مسلمانوں نے سیکڑوں سال ہم پر حکومت کی ہے،لاکھوں ہندؤ ں کو مارا کاٹاانہیں زبر دستی مسلمان بنایا،ہماری عورتوں اور بچیوں کی عزّت لوٹی مسلمان،چاہے کٹر ہو یاصلح پسند دونوں خطرناک ہے، یہ آئے دن دنگے فساد کے پھیر میں رہتے ہیں وغیرہ“(انیل کمار/ڈاکٹر عبداللہ صدیق،پٹنہ)
ہماری بے اعتنا ئی کی حد اتنی ہی نہیں بلکہ مزید یہ کہ ہمارے بیشتر تعلقات غیر مسلمین سے ہیں لیکن انکو ا ذان کے بارے میں بھی پتہ نہیں بہت زیادہ تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنی ا ذانوں میں کہا کرتے ہیں کہ   ”اکبرجیسا بادشاہ پھر ہو“اور بعض لوگ تواذان ہی کو نماز سمجھ تے ہیں ہندی کا مشہور شاعر کبیر داس جو خود کو آدھا مسلمان کہتا تھا اسکی اذان سے عدم واقفیت کا حا ل یہ تھا کہ اس نے کہا:
                 کانکر پاتھر جوڑ کے مسجد لیو بنائے
                  تا چڑھ ملا بانگ دے کیا  بہرا ہوا خدائے
 بہر حال: یہ سب جاننے  کے بعد کیا یہ سوا ل پیدا نہیں ہوتا کہ کیا ہم نے ان غلط فہمیوں کے ازالہ کوششیں کیں ....؟کیا ہم نے شرک و بت پرستی اور باطل عقائد کے دھوپ میں جھلستی انسانیت کو شجر اسلام کے سایہ ئعافیت میں لاکر کھڑا کرنے کی کوشش کی....؟نفرت وعداوت اور خدا فراموشی کے اس دور میں انسانوں درد غلامی سے آزاد کرانے کی فکر کی...؟.اور ذرا سوچئے! کل جب خدا ئے عز وجل میدان محشر میں  ہم سے سوال کریگا میں راہ سے بھٹک رہا تھا  تم نے مجھے راہ کیوں نہ دکھائی؟ کیا ہمارے پاس اس سوال کیلئے کوئی جواب ہے؟
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جولائی 2009ء