ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

اسلامی کلینڈر کے تئیں یہ بے توجُّہی اور بے حسی‘آخر کیوں؟؟

لیجئے!روزوشب کے مسلسل سفر نے سال کی ایک اور منزل طے کر لی اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے 1435؁ھ سے1436؁ھ میں داخل ہو گئے لیکن نہ ہی ”ہپّی نیو ایئر“کی گونج سنائی دی نہ ہی مبارکباد و تہنیت کے سلسلے میں وہ گرم جوشی دیکھنے میں آئی جو عموماََ عیسوی سالِ نو کے آغازپر دیکھنے میں آتی ہے۔اس کی قطعاََ حمایت نہیں کی جا سکتی کہ اس موقع پر بھی اسی بے ہنگمی کا مظاہرہ کیا جائے اور وُہی طوفانِ بد تمیزی برپا کی جائے جو عیسوی سالِ نو کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے مگر اس کی بھی تائید نہیں کی جا سکتی کہ اس با حرمت ماہ کی آمد اور اسلامی سالِ نو کے حوالے سے جس سرد مہری کا برتاؤ کیا اور جس بے توجہی کا احساس کرا یا جاتا ہے وہ بالکل بہ جا اور رَوا ہے۔
کم پڑھے لکھے‘غیر تعلیم یافتہ اور دین   و مذ ہب سے نا بلد افراد کو تو چھوڑ       ئیے؛نام نہاد ”پڑھے لکھے“ اور بزعم خود ”دین دار“لوگوں کو بھی اس کا علم نہیں کہ ماہ محرّم کا آغاز کب ہوا؛اس سے ہمارا‘ہماری اسلامی تاریخ کا کتنا گہرا رشتہ وربط ہے اوراسلامی کلینڈر کا تعلق ہماری عبادات اور مذہبی فریضوں سے کس قدر ہے؟بہت زیادہ تو ماہِ محرّم کو محض اس لئے جانا جاتا ہے کہ اس ماہ میں نواسہئ رسول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جامِ شہادت نوش فرمایاجس کے ”غم“ میں با ضابطہ باجے گاجے اور ناچ گانے کے ساتھ جلوس نکا لنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہاں موقع نہیں کہ اس ”عظیم الشان اسلامی جلوس“ کے تمام مفاسد کا احاطہ کیا جا سکے اور اس موقع پر خوش نما اور باعظمت لیبل لگا کرکیسے کیسے بدعات و خرافات کی ترویج کی جاتی ہے اور کس کس طرح دینِ اسلام کی دھجّیاں اڑائی اور بکھیری جاتی ہیں اُن کو ذکر کیا جا سکے۔
ہم‘خصوصاََہماری وہ نوجوان نسل جس کے ہاتھوں مستقبِل میں ہم ملک و ملت کی زمام سونپنے والے ہیں -جو ہمارے حال کے گراں قدر سرمایہ اور مستقبِل کے با ہنر معمار ہیں -اسلامی تاریخ اور اسلاف کی روایات سے اس درجہ ناواقف و غافل ہیں کہ اُنہیں اسلامی مہینوں کے نام کا بھی علم نہیں ہے۔بیش تَر نوجوان رمَضان‘محرّم اسی طرح دوسرے اِک آدھ مہینوں کے علاوہ کسی اورمہینے کے نام سے شاید ہی واقف ہوں‘بقیہ دیگر اسلامی مہینوں کے نام سے بھی ان کے کان ناآشنائے محض ہیں۔
یہ ہی نوجوان نسل جو”نیو ایئرنائٹ“کو اپنے احباب اور دوستوں کو ”وِش“کرنے میں بازی لے جانے کے لئے دیر رات تک اپنی نیند قربان کرکے اس لئے جاگتی رہتی ہے کہ جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں بارہ بجنے کا اشارہ دیں اور تاریخ تبدیل ہواسی کے ساتھ ہی اپنے متعلقین و احباب کو سب سے پہلے نئے سال کی مبارک باد میری جانب سے پیش کی جائے۔اس سلسلے میں مکمل مستعدی بَرتی جاتی ہے کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر غفلت طاری ہو جائے‘اور نیند کی آغوش میں چلے جانے کی وجہ سے ”نیوایئروِش“کرنے میں کوئی دوسرا مجھ سے سبقت لے جائے مگر اسی نوجوان نسل کومحرم کے چاند کے دیدار کے لئے نہ ہی پریشان دیکھا جاتا ہے اور نہ کسی چہرے پر تفکُّرو اضطِراب کی وہ لکیر بھی دیکھنے میں آتی ہے جسے”نیو ایئر نائٹ“کی فکر مندی کا عشرِعشیر بھی کہا جا سکے۔
انگریزوں کی غلامی اور نقالی میں اِنہوں نے اپنے تشخُّص اور شناخت کو اس طرح بھینٹ چڑھا دیاہے کہ اِنہیں اپنے لئے مسلمان ہونا اور خود کو مسلمان کہلانا بھی باعث ندامت اور وجہ ِذلت محسوس ہونے لگا۔ مغرب زدہ نو جوانوں پر”انگریزیّت“کا اس قدر غلبہ ہے کہ مسلمان ہونے کے باوُجود وہ اپنے ناموں میں انگریزی الفاظ کی آمیزش باعثِ ننگ وعار سمجھنے کے بجائے سببِ افتخار تصوُّر کرتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ”فیس بُک“اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرTauqeer Rock,Wicked Naziya,Fayyaz The Hulk,Stupid Rashid,Devil Minded Imranاور ایسے ہی متعدد ”آدھا تیترآدھا بٹیر“جیسی شکل والے نام دیکھنے میں آتے ہیں۔گویا پیدائشی انگریز نہ ہونے کے ارمان کو ”بھاگتے بھوت کی لنگوٹ ہی سہی“پر عمل کرتے ہوئے اس طرح کے بے ہودہ نام رکھ کر پورا کرنے کی ناکام سی کوشش کی جاتی ہے۔بھلا اُن کے ذہنی دیوالیہ پن کا کیا علاج جنہوں نے اپنی غیرت و خودداری ہی گِروی رکھ دیا ہو اور جنہیں:
ع مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
کاش اسلاف کی رِوایات کو یکسرفراموش کر دینے اوراُن کے نقوشِ حیات کو مکمل پسِ پُشت دال دینے والے اِن ”کالے انگریزوں“سے کوئی رازدارِرسول سیدنا حذیفہ بن الیمان (رضی اللہ عنہ) کی غیرتِ ایمانی سے لب ریز اس واقعے کو گوش گزار کر دے کہ جب اُس دور کی سُپر پاور حکومت کسریئ فارس کے دربار میں کھانا کھاتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے گرے ہوئے لقمے کو اٹھا کر کھانا چاہا تو اُنہیں اُن کے ہم نشین نے کہنی مار کر اِس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی کہ یہ امر فارسیوں کے لئے حرص پر دال ہونے کی وجہ سے معیوب تھا۔اِس کے جواب میں صحابی ئ رسول کی زبانِ حق نوا سے”کیا میں اِن بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے نبی کی سنت ترک کر دوں؟“کا جو اِلہامی جملہ نکلا وہ تاریخ کے اوراق پر سُنہرے حروف میں لکھ کر سدا کے لئے محفوظ کر لیا گیالیکن یہ بات باعث تاسُّف بلکہ صد تاسُّف ہے کہ اُن ہی نور پیکر‘بلند حوصلہ اور شاہیں جگر اسلاف کے ناہنجار اخلاف اُن کی حیاتِ با برکات سے استِفادہ کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید میں مگن نظر آرہے ہیں۔ اقبال مرحوم نے صد فی صد درست کہا تھا کہ:
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا
یہ ایک مسلَّمہ حقیقت اور ناقابل ِانکار صداقت ہے کہ کلینڈر کسی بھی قوم کی رِوایات کا غماز اوراُن کی تاریخ کا آئینہ دار ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام کے علاوہ دوسرے اقوام و مِلل میں بھی جو کلینڈر رائج ہیں وہ اُن کی تاریخ سے وابستہ اور اُن کی مذہبی رِوایات پر دال ہیں۔ٹھیک ایسے ہی اسلامی کلینڈر بھی اپنی مُمتاز حیثیت اور الگ شناخت رکھتا ہے۔چناں چہ اسلامی مہینوں کے نام  بھی اس کی عبادات و رِوایات کی جانب مُشیر ہیں اور ہمیں اسلامی تاریخ سے رُو شناس کراتے ہیں۔
کیا ایسے نازک وقت میں جب کہ اعداء ِاسلام نے چہار جانب سے ہمیں ہماری درخشاں و تابندہ تاریخ بھُلانے میں تن‘من‘دھن کی بازی لگا دیا ہے-کیوں کہ یہ ہی وُہ متاعِ بے بہا ہے جس سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ہم اپنے مستقبِل کی تعمیر و ترقی کے لئے سرمایہ فراہم کر سکتے ہیں -ہمارے اوپر لازم نہیں کہ ہم اپنی نسلِ نو کو اُن کی تاریخ سے آگاہ کریں  تاکہ اِن فریب خوردہ شاہینوں میں -کہ جن کے جہان کی روشنی ”مانگے  کے اجالوں“کی رہین ِمنت ہے-یہ احساس بیدار ہو سکے کہ
ع خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
تاکہ وہ اپنے خاص اسلامی رنگ و آہنگ کے ساتھ مغرب اور مغرب زدہ افراد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی جرأت کر سکیں کہ:
”کیا میں اِن بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے نبی کی سنت ترک کر دوں!!؟“
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:اکتوبر 2014ء

توہین شمع رسالت:پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ظلم وشقاوت‘سنگ دلی وقساوت‘جبروتشددکی مہیب تاریکیوں ؛ تمردوسرکشی‘کفروطغیان اور بد بختی وجہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں کے خوفناک سینے کوچیرتے ہوئے عدل ومساوات‘ہم دردی ومواخات‘محبت والفت‘رافت ورحمت اور شفقت وغم گساری کا سورج تمام تر رعنائیاں لئے اپنے مطلع پر نمودارہوا۔آنکھیں موندنے والوں نے آنکھیں موندلیں؛گندہ ذہن‘ناپاک ذہنیت اور بد طینت جن کی عقلوں پر ڈاٹ لگے ہوئے تھے اور جن کی کج فہمی نے انہیں ظلمت پسند بنایاہواتھا‘انہوں نے بجائے اس کے کہ آفاق پر چھائی ہوئی روشنی سے استفادہ کر کے اپنی گم رہی پر متنبہ ہوتے اور سیدھی راہ پر چل پڑتے‘اس آفتاب ِضیاپاش پر تھوک کر اپنے چہروں کوآلودہ کر لیااورجس ماہتاب سے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے لاتعداد مسافرین اور تاریک زدوں کو ان کی حقیقی منزل اور یقینی ہدف سے روشناس ہوناتھااسے اپنی بے اثر پھونکوں سے گل کرنے کی ناپاک وناکام کوشش میں مصروف ہو گئے۔ناعاقبت اندیشوں کایہ غول اپنے دلوں میں چھپے ہوئے  ”خبث“کامظاہرہ کر کے اپنے تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اس منبع انوار سے نکلنے والی روشن کرنوں پر غلط فہمیوں اور بے سروپاباتوں کے دبیز پردے ڈالنے میں مشغول ہوگیا۔جس ذات کو انسانیت ہی نہیں بلکہ حیوانات‘جمادات ونباتات سمیت تمام جہانوں کے لئے پیکرِ رحمت بناکر مبعوث کیاگیاتھا اپنی دریدہ ذ ہنی کااظہار کرتے ہوئے اسے سب وشتم کاشکار بنانے اور اس کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگے۔
افتراپردازی کابازارگرم ہو گیا‘اندھیروں کی پرستش کرنے والوں نے اجالے کے پیام بر کے اردگرد ناپاک سازشوں کاجال بچھاناشروع کردیالیکن چوں کہ حق کو ہمیشہ امدادِغیبی ونصرتِ خداوندی حاصل رہی ہے اور جب تک آسمان پر جگمگاتے قندیلوں کے اندر سے چمکنے کی صلاحیت سلب نہ کرلی جائے یہ نصرت واعانت کاسلسلہ جاری رہے گا۔چنانچہ پھر دنیانے دیکھااور نہ صرف دیکھابلکہ متحیر ومتعجب نگاہوں سے دیکھا کہ وہ کرنیں جس کے ”مضر“اثرات سے بچنے کے لئے آنکھیں موند لی گئی تھیں اور اسے خطرے کی گھنٹی قرار دے کر گردوپیش کو اس  سے محفوظ ومکنون رکھنے کی مکمل کوشش کی گئی تھی لیکن اس کے اثرات بڑی تیزی کے ساتھ منتقل ہوتے ہوئے دکھائی دینے لگے‘طاغوتی لشکروں کے تمام مکر”ہباءََ منثورا“اور ان کے دام تزویر”تارعنکبوت“ثابت ہوئے۔بھلاایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ کائنات کی سب سے سچی کتاب نے تو یہ قانونِ فطرت صدیوں قبل اپنے مخصوص ڈھنگ اور خاص رنگ وآہنگ کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے کہہ دیاتھا کہ”حق آ گیااور باطل مٹ گیا‘بے شک باطل تھاہی مٹنے ہی والا“(بنی اسرائیل‘آیت:۱۸)
وہ آواز اٹھی تواٹھتی ہی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم پر اس طرح چھاگئی کہ اس نے سماعتوں کو نہ صرف متاثربلکہ مسحورکردیا۔اس آواز میں ایک کشش تھی نورانی کشش‘جاذبیت تھی انوکھی جاذبیت جس میں سسکتی انسانیت کے لئے سامان تسلی‘زخموں سے چوراورآہوں سے معمور جانوں کے لئے مرہم اور شکستہ دل مظلوموں کے لئے سکون ِقلب کانسخہ تھاکیوں کہ اس  صدائے دل نواز میں سچائی تھی‘ حقیقت تھی؛ اس میں کسی لگاوٹ‘بناوٹ‘تصنع اور ملمع سازی کا شائبہ تک نہ تھا۔چنانچہ اس پکار کا ہر وہ دل مسکن اور ہر وہ ذہن ودماغ گہوارہ بن گیا جوحق پسند‘نیک طبیعت اور حقیقت کامتلاشی تھااورہراس شخص نے اس صداپرلبیک کہاجوفیصلہ لینے میں تعصب‘ہٹ دھرمی‘عناد اور بغض کے بہ جائے حقائق بینی اور صداقت فہمی سے کام لیاکرتاتھا۔جن کے قلوب واذہان پر نسلی عصبیت‘خاندانی رقابت اور نسبی تفاخر کا تسلط تھاوہ سدا کے لئے حرماں نصیب قرار دے دیئے گئے اوروہ لوگ جوحق کے جوئندہ اور قلب ِسلیم رکھنے والے تھے انہوں نے نہ صرف سچے دل سے خلوص کے ساتھ اس پیغام کوقبول کیا بلکہ اپنی زندگی اور اپنی متاعِ حیات کے تمام تر بیش بہا اثاثے  ندائے حق کے اس منادی کے قدموں میں اپنی تنگ دامنی کے اعتراف اورعجزکے احساس کے ساتھ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے  پیش کردیا کہ:
حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
اور جن کا کف ِ نصیب ہدایت کی لکیر سے خالی تھاان محروم القسمت لوگوں میں جس کا نام سر فہرست ہے وہ شخص تھا جس کے سر میں غرور کا قبضہ تھا‘جسے رب کائنات کی جانب سے حق کے پرکھنے کی بے پناہ صلاحیت ودیعت کی گئی تھی لیکن اس بد بخت نے اس خداداد نعمت کی ناشکری کی اوراس عطیہئ خداوندی سے کام لے کرحق نوا کی ہم نوائی کے بجائے سچائی کی اس آواز کودبانے اور سدا کے لئے خاموش کردینے کی کوشش میں خود کو جھونک دیاتو حق وباطل کے درمیان امتیاز کی صلاحیت بخشنے والے نے اس سے اعترافِ حق کی لیاقت واپس لے لی اور اس کے قلب پربدبختی کی مہر ثبت کردی۔پھر دنیانے دیکھا کہ وہی شخص جس کی عقل ودانائی کے چرچے زبان زد خاص وعام تھے اور زبان خلق اسے”ابوالحکم“کہہ کر پکارتی تھی اس نے جب متعصب ذہنیت کامظاہرہ کیا اوراپنی کم ظرفی کااعلان کرتے ہوئے آفتابِ صداقت کودیکھ کر اس کی ضیابارکرنوں سے اپنے تاریک وجود کو بقعہئ نور میں تبدیل کرنے اور”صاحب نور“سے اجالے مستعار لے کراپنی کائناتِ قلب وجگر کو منورکرنے کے بجائے اس سراجِ منیر کو بجھانے کی تدبیریں کرنے لگا تو وہی ”ابوالحکم“رہتی دنیاتک کیلئے ”ابوجہل“سے ملقب کر کے نشانِ عبرت بنادیاگیا۔
چشمہائے فلک اس بات پر شاہد ہیں کہ اس شمعِ حق کو جب جب بجھانے کی ناپاک کوشش اور اس نوائے حق کو جتنی زور کے ساتھ دبانے کی سعیِ مذموم کی گئی‘اس کی روشنی میں اسی قدرتیزی آئی اور یہ صدااتنی ہی بلند ہوتی چلی گئی۔
حق وباطل ہمیشہ ایک دوسرے سے متصادم بلکہ برسر پیکار رہے ہیں اور صبحِ قیامت تک یہ معرکہئ خیروشر جاری رہے گا۔اسی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے شاعر مشرق نے کہا تھاکہ:
ستیزہ کار رہاہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولھبی
اوراب بھی یہ ناپاک سلسلہ رکانہیں بلکہ ہر لمحہ اپنے طریقہئ کار میں تجددلاکر اپنے مکروہ عزائم اور بدترین منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے میں  مصروف ہے۔
تاریخ کی نگاہوں نے یہ عبرت ناک منظر بھی دیکھا کہ راجپال نامی ایک ذلیل ترین شخص نے نبی ِ معظم(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتہامات کی یورش کرتے ہوئے ایک ناپاک کتاب لکھی جس میں اس ذا ت بابرکات(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مطعون ومقذوف کرنے کی   جرأت بے جااور جسارت ناروا کی گئی تھی وہیں ایک اَن پڑھ نوجوان جسے نہ کسی بڑے دینی درس گاہ سے سند فراغ حاصل تھی نہ وہ کسی عالمی یونیورسٹی کاڈگری یافتہ تھا‘نہ کسی خانقاہ کاحاضر باش تھااور نہ کسی شیخ کاارادت مندبلکہ وہ ایک سیدھاسادہ عام نوجوان تھاجو محنت ومزدوری کر کے بہ قدر کفاف اکل ِحلال کاانتظام اپنی قوت بازو سے کرتا۔اسے جب اس خبیث حرکت کاعلم ہواتو اس نے راجپال نامی سگ ِگستاخ کو جہنم رسید کردیااور اس ”جرم“کی سزا کے طور پر خودکو تختہئ دار کے حوالے کردیا:
خوشا وقتے کہ میری موت تیرے کوچے میں آجائے
یہی تو زندگی کاآخری ارمان ہے ساقی
عشقِ نبی میں ڈوبے ہوئے ہر دلِ دردمند کے لئے وہ روح فرسا اوردل دوزلمحہ بھی آیاکہ ”شیطان“رشدی نامی ایک ملعون نے مقدس اورپاکیزہ”قرآنی آیات“کے مقابلے میں متعفن اور ناپاک”شیطانی آیات“لکھ کر اپنے نوشتہئ اعمال پر کالک پوت لی اور فالج زدہ ذہنیت کے مالک یہودی نشریاتی ادارہ”وائی کنگ پبلکیشنز“نے مغلظات سے پُراس کتاب کو  پورے طمطراق کے ساتھ شائع کیاجس میں کائنات کے سب سے باعصمت شخصیت بلکہ پاک بازوں کے سرتاج کی جانب فحش باتیں منسوب کی گئی تھیں اور اس ذات کی ردائے شفاف بلکہ شفاف ترکو داغ دار کرنے کی گھناؤ نی حرکت کی گئی تھی مگر آفریں ہے مغرب کی اس ”روشن خیالی“اور”اظہارخیال کی آزادی“پر کہ  اسے اس کرتوت کا مزہ چکھانے کے بجائے اس ”عظیم کارنامہ“کے صلے میں اس ”شیطان“کے بدبودار وجود کی مکمل پشت پناہی کی گئی اور راتوں رات اسے شہرتوں کے بام عروج پر پہنچادیاگیا۔
ٓ پھراس طرح بھی شیدائیانِ رسالت کے دلوں کوکچوکے لگانے کاسامان کیاگیاکہ اس محسن اعظم(صلی اللہ علیہ وسلم)کے اہانت آمیز خاکے ”آرٹ“کی نمائش کے طورپر پیش کئے گئے اوریہ کہہ کر اس شنیع حرکت کو جواز فراہم کرنے کی بھی جسارت کی گئی کہ ”جب ہٹلر اور چرچل کے کارٹون بنائے جاسکتے ہیں تو(فداہ ارواحنا)محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے خاکے کیوں شائع نہیں کئے جاسکتے؟“جی چاہتا ہے کہ جہالت وحماقت کے ان مجسم نمونوں سے ان کی عقلوں کاماتم کرتے ہوئے پوچھوں کہ اے عقل کے اندھو!الجھن و بے قراری کے باد سموم کوسکون وقرار کے بادنسیم سے‘سیاہی کو سفیدی سے‘حقیقت کوفریب سے‘افتراکوسچائی سے‘کذب بیانی کو صدق کلامی سے‘سفاکی کو رافت و غم گساری سے اور نفرت وتعصب کے شعلے کو انس ومحبت کی ٹھنڈی شبنم سے کیاتعلق اور کیساربط؟
چہ نسبت خاک را  با عالم پاک؟
اور یوں بھی ہواکہ ہندوستان کے معروف شہر”بھونیشور“سے نشر ہونے والے”اوڑیا“زبان کے”سمباد“نامی اخبار نے ۲۱/ربیع الاول(۳۱/جنوری ۴۱۰۲؁ء)کواپنے تعفن زدہ ذہنیت کامظاہرہ کرتے ہوئے ہادیئ عالم (صلی اللہ علیہ وسلم)کی خیالی تصویر شائع کرکے اس جہان میں قعرِمذلت اور اس جہان میں آتش سوزاں کی ہمیشگی کواپنے لئے مقدر کرلیا پھر کیاتھادیکھتے ہی دیکھتے فضائیں مکدر‘ہوائیں غبار آلود اورلوگ مشتعل ہوگئے۔حب ِ رسالت اور عشق ِ نبوی سے سرشار نوجوان غم وغصہ کی تصویر بنے اپنی جان ہتھیلیوں پہ لئے سڑکوں پرآگئے اورمذکورہ اخبار کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرکے اسے نذرِ آتش کردیااور کسی ”لومۃ لائم“کی پرواہ کئے بغیرتمام ”مصلحتوں“کوبالائے طاق رکھتے ہوئے بر ملا یہ اعلان کردیاکہ:
ناموس محمد عربی پر ہم جان نچھاور کر دیں گے
گر وقت نے ہم سے خوں مانگاہم وقت کا دامن بھر دیں گے
اگرچہ یہ آتش زدگی اور بربادی کسی مسئلے کاحل نہیں ہے مگر اس عشق کو کیا کہئے کہ کسی پس وپیش اور لیت ولعل کی بھول بھلیوں میں پڑنا جس کے ”آداب“ کے خلاف ہے۔شاید غیر ضروری”دور اندیشیوں“سے پاک ہونے کی وجہ سے ہی:
عشق کی دیوانگی طے کر گئی کتنے مقام
عقل جس منزل پہ تھی اب تک اسی منزل پہ ہے
کیونکہ:
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بے چارہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
اور اسی ”کوتاہ اندیشی“کاکرشمہ تھاکہ:
بے خطر کود پڑاآتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِتماشائے لب ِبام ابھی
لیکن ان میں سب کے سب ایسے ہی دریدہ دہن‘منہ پھٹ‘حرکت ناروااور جسارت بے جاکرنے والے نہیں بلکہ ظلمت کو ضیااور صرصر کو صباکانام دینے کے بجائے اندھیرے کو تاریکی اور اجالے کو روشنی کہنے کاحوصلہ رکھنے والے بھی ہیں۔
منصف مزاجوں کی اس فہرست میں اپنے اندر معلومات کا خزینہ رکھنے والے افراد بھی ہیں اور سیدھے سادے واجبی سی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ بھی‘فلسفی و سائنس دان بھی ہیں اورسیاسی قائدین بھی‘کھیل کی دنیامیں اپنے نام کی دھاک بٹھانے والے کھلاڑی بھی ہیں اورسرحدوں کے محافظ فوج کے جاں باز بھی‘قلم کاجادو جگانے والے ادباء بھی ہیں اور تخیلات کو الفاظ کا پیرہن دینے والے شعراء بھی‘مقننہ کے اراکینِ قانون ساز بھی ہیں اورایوانِ حکومت میں عوامی نماندگی کرنے والے لیڈران بھی!
ان ہی قول عدل کہنے اور سچ بولنے کی جرأت رکھنے والوں میں  ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے تعلق رکھنے والا حق نویس عیسائی مصنف ”مائیکل ہارٹ“بھی ہے جس نے اپنی مقبول ترین کتاب ”سو عظیم آدمی“میں سچائی کابرملا اعتراف کیااوراسے انسانی تاریخ میں متاثر کن شخصیات کاتذکرہ کرتے ہوئے نبی ِ رحمت(صلی اللہ علیہ وسلم)کاذکرزبانِ قال وحال دونوں سے ہی یہ کہتے ہوئے سب سے پہلے کرنا پڑاکہ:
آفاقہاگردیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
اوراس آئینہ خانے کاایک عکسِ جمیل اردو کے نامور شاعر ”رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری“کے یہ اشعار بھی ہیں کہ:
انوار بے شمار معدود نہیں ہے
رحمت کی شاہ راہ مسدود نہیں ہے
معلوم ہے کچھ تم کو محمدؐکامقام
وہ امت ِاسلام میں محدود نہیں ہے
یہ دو مثالیں بطور نمونہ ”مشتے از خروارے“کے طور پر پیش ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ:
سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے
یہ بات بھی ناقابل ِ انکار ا ورمتعین ہے کہ جب بغض وعداوت کے شعلے ٹھنڈے ہوں گے‘تعصب کے دبیز پردوں کو چاک کردیا جائے گا‘عناد کی تیرہ وتار گھٹائیں چھٹ جائیں گی‘منافرت ومخاصمت کے دھوؤں فضا صاف ہو جائے گی‘یہ دنیا انانیت پرستی کے لبادے کو اتار پھینکے گی اورآنکھوں پر بندھی بے جااور بلاوجہ ضد کی مکروہ پٹیاں کھول کرسچائی کی کھوج میں سرگرداں اور حقائق کی متلاشی ہوگی تو بے اختیار یہ کائنات بارگہِ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسلم)میں جبین ِ عقیدت خم کرکے سکون وطمانیت کااحساس کرے گی اور وہی لوگ کہ جوناموس ِرسالت(صلی اللہ علیہ وسلم) پر داغ لگانے کے در پے ہیں ان کی نسلیں غلامانِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کہلانے میں فخر محسوس کریں گی کیونکہ رفعتوں کے مالک کایہ فرمان حرف بہ حرف مبنی بر حقیقت ہے کہ:
”ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا“(الم نشرح‘آیت:۴)
اسی لئے:
باطل جو صداقت سے الجھتا ہے تو الجھے
ذروں سے یہ خورشید بجھاہے نہ بجھے
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:مئی 2014ء

مفکراسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کی سیاسی خدمات

(رابطہ صحافت اسلامی ہند اور "بصیرت"(آن لائن)کے زیر اہتمام کل ہند مسابقہ صحافت میں اول انعام یافتہ تحریر)
زمانہ ہو گیا گزرا تھاکوئی بزم انجم سے
غبارراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
صاحبان نظراور ارباب دانش وبینش  کی دور بیں نگاہوں سے یہ امرمخفی نہیں ہے کہ شخص سے شخصیت کاسفر طے کرنے میں کوئی  تھوڑاوقت اور مختصر مدت نہیں لگتی بلکہ اس کے لئے برسہابرس لگانا اور  ”کھپانا“ پڑتاہے تب کہیں جا کے کوئی ”جیالا“حالات کی بھٹی سے کندن بن کر زبان حال سے یہ کہتاہوا نکل آتاہے کہ:
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے”انسان“نکلتے ہیں
ورنہ اگر یہ اتناہی آسان عمل ہوتاتو شاعر مشرق کو ہرگز یہ نہ کہناپڑتا:
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں اوج ثریاپہ مقیم
پہلے پیدا تو کرے کوئی ایسا قلب سلیم
شخصیت کے تعمیرو تشکیل میں محنت شاقہ ایک ازلی صداقت اورابدی حقیقت ہے  گوکہ کور چشموں کو نظر نہ آئے کہ:
کیاگزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
”تمنائے مختصر“کے لئے قائم کی گئی اس”تمہید طولانی“ کاخلاصہ یہ ہے کہ شخص سے شخصیت بننے میں جو عرصہ لگتا ہے وہ متاع حیات کاایک معتد بہ حصہ ہوا کرتا ہے جسے  یوں بھی واشگاف کرنے کی کوشش کی گئی کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 یقیناََشخصیت کی تعمیر کے لئے جاں کاہی اورمغز پاشی کا”میٹیریل“وافر مقدار میں درکار ہوتا ہے کیوں کہ:
ساراکلیجہ کٹ کٹ کے جب اشکوں میں بہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
لیکن پھرشخصیات کی بھیڑ اور ”ہستیوں“کے انبوہ میں بھی کچھ چہرے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور دیکھنے والے بہت دور سے بھی ان کے رخ روشن کو دیکھ بآسانی پہچان لیتے ہیں اور اس میں ذرا خطا نہیں کرتے۔ایسی ہی امتیازی حیثیت اور خصوصی شناخت رکھنے والی شخصیات میں سے حضرت مولاناابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی بھی ہے جو بہ یک وقت بہترین مدرس بھی تھے اور زبردست منتظم بھی‘امت کا درد رکھنے والے مفکر بھی تھے اور ملی کاموں کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے مجاہدبھی‘باوقار عالم بھی تھے اور بلا کی ذہانت سے مالامال سیاست دان بھی!
مولاناکی شخصیت گوناگوں اوصاف حمیدہ کا مرقع اورمختلف النوع خوبیوں کاپیکر تھی۔اس دور قحط الرجال میں ایسی فقید المثال شخصیت قرون ماضی کی یاد دلاتی تھی۔ان کی شخصیت بلا شبہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھی‘وہ جس میدان میں جانکلتے وہاں اپنی لیاقت ومہارت کا لوہا منوا لیتے‘وہ:
چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو
جس رخ سے بھی پڑھوگے تم ”اسے“جان جاؤ گے
کے مصداق تھے۔وہ ”در کفے جام شریعت“کے مالک تھے تو”در کفے سندان عشق“بھی رکھتے تھے۔ان کے متعلق یہ کہنے میں کہیں سے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے:
پھونک کر اپنے آشیانے
روشنی بخش دی زمانے کو
وہ ”بسطۃ فی الجسم“ تو نہ تھے مگر ”بسطۃ فی العلم“ہونے میں نایاب نہ سہی لیکن کم یاب ضرور تھے۔انہوں نے جہاں اپنی تدریسی خوبیوں اور افہام وتفہیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے بہار ایسی بنجر اور شوریدہ زمین کو تعلیم و تعلم کے لئے کچھ اس طرح زر خیزی بخشی کہ بہاری طلبہ جن کے نزدیک بیرون بہار حصول تعلیم کے لئے جانا ہی کام یابی کی معراج  تصور کیاجاتاتھا-اور یہ احساس کم تری بہاری طلبہ کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہاتھا- لیکن مولانا کی پر کشش اور سحر انگیز شخصیت نے ان تشنگان علم وآگہی کو اس سلیقے سے سیراب کیا کہ ہمیشہ ”ہل من مزید“کانعرہ لگانے والوں کے قدم تھم بلکہ جم سے گئے اور انہیں ”دور کے ڈھول سہاون“کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے شائقین علم نے جوق در جوق اس با فیض شخصیت کی جانب رجوع کرنا شروع کردیاتو دیکھنے والی متحیر نگاہیں سراپا سوال بن کر یہ پوچھنے لگیں کہ:
ہجوم کیوں ہے زیادہ”شراب خانے“میں؟
پھر مولاناکی شخصیت کو دیکھ اور ان سے واقفیت حاصل کرکے انہیں اس کا جواب بھی جلد ہی مل جایاکرتاکہ:
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے ”مرد خلیق“
”زمین شور“اور ”مردم خورسرزمین“کہنے کی جرأت اس نا چیز کونہیں بلکہ اس ”خصوصیت“ کاتذکرہ بہارکے مایہ ناز سپوت‘ صاحب طرز ادیب اور عالم شہیر علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے کیا ہے؛یہ خیالات ناچیز نے ان ہی سے مستعار لئے ہیں۔اور ویسے بھی پیش نظر تحریر میں  زیادہ تر ”مانگے کے اجالوں“سے کام لیا گیاہے اس لئے اس اعتراف میں کوئی حجاب مانع نہیں ہے کہ:
”ان“ہی کی محفل سنوارتا ہوں‘چراغ میرا ہے رات”ان“ کی
جہاں مولانا نے وادیئ تدریس میں اپنی لیاقت مندی کے پرچم نصب کئے  وہیں انہوں نے اپنے جذبہئ اخلاص اور تواضع و کسر نفسی کے وہ نمونے پیش کئے اور ”مد نظر مرضی ئ جاناناں چاہئے“کا عملی ثبوت کچھ انداز سے سے پیش کیاکہ تاریخ کی نگاہیں عش عش کر اٹھیں اور ”لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!“کی صدا لگانے والوں کو مانگی مراد مل گئی۔لگے ہاتھوں ان واقعات کا ذکر بے محل نہ ہوگاجومولانا کے انکسار وتذلل پر دال ہیں۔ جہاں آپ کو ”مدرسہ انوار العلوم‘گیا“کی عمارت کے موقع پر طلبہ کے ساتھ اینٹیں ڈھونے میں بہ نفس نفیس شرکت کرتے ہوئے دیکھا گیاوہیں اس کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ جب چمپارن میں زلزلے کے زد کی تاب نہ لاکربیشترکچے مکانات زمین بوس ہو گئے اور مفلوک الحال لوگ جن کے پاس سے سر چھپانے کو جو سائبان میسر تھاوہ بھی جاتا رہا تومولانا نے زلزلہ کی زدمیں آئے ان علاقوں کا سفر کیا اوران افلاس زدہ بے یارو مددگار لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے”نیک مشوروں“سے ”نوازا“بلکہ ہاتھ میں چاقو اور رسی لئے ان گھروں کے ٹھاٹھ کے بندھن کو باندھ کر سنت نبوی کا عملی مظاہرہ کیا۔
آپ قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ گفتار نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔آپ نہ کرنے سے پہلے بلند بانگ دعوے کر کے مخاطبین کو خواہ مخواہ مرعوب کرنے کی بے جا کوشش کرتے نہ  ہی ”کر جانے“کے بعد موقع بہ موقع خود منہ میاں مٹھو بن کر ان کارناموں کا کسی نہ کسی بہانے سے تذکرہ کر کے دوسروں کو صبر وضبط کے امتحان میں مبتلا کرتے۔وہ جو کچھ کرتے اسے نہایت رزداری کے ساتھ انجام دیتے اور اگر کبھی اس کا ذکر ناگزیر بھی ہوتا توکسی لگاوٹ‘بناوٹ اورتصنع کو جگہ دیئے بغیر نہایت دیانت داری  کے ساتھ بیان فرمادیتے۔انہیں کسی کام کا”کریڈٹ“لینے کے لئے بھاگم بھاگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیابلکہ اکثر اپنے کاموں کا”کریڈٹ“دوسروں کو دے جاتے کیوں ان کے پیش نظر ہمیشہ ہی ”مرضیئ جاناں“ہواکرتا۔وہ جو بولتے وہی کرتے اور جو کرتے وہی بولتے بلکہ اکثر اپنے کارنا موں کے حوالے سے خاموش رہتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہاں ان کاموں کی قیمت چاہ کر بھی ادا نہیں کی جا سکتی اس لئے”ان اجری الاعلی اللہ“کہہ کر وہ تجارت کرلیتے جس کے بارے میں حقیقت کی غمازی کرتے ہوئے کہا گیا کہ:
سودا یہ وہ ہے جس میں خسارہ کوئی نہیں
انہوں نے ایسے وقت میں سیاست میں قدم رکھا جب کہ پوری قوم کاشیرازہ بری طرح انتشار کا  شکار تھا؛ان کے حواس مفلوج‘قلب و ذہن مجروح اورعقل ودماغ محکوم ہورہے تھے‘ مسلمانوں کو سیاسی طور پر”یتم“کی تلخیوں کااحساس ہو رہاتھا‘کارواں ”نگہ بلند‘سخن دل نواز‘جاں پرسوز“جیسے وقیع اوصاف سے متصف میر کارواں کی تلاش میں سرگرداں تھا‘ بیمارقوم کسی مسیحا کے مبارک قدموں کے چاپ سننے کو منتظر اور پرامید نگاہوں سے کسی ”نجات دہندہ“کی جانب دیکھ رہی تھی۔ایسے وقت میں ”استحباب“کے درجے میں نہیں بلکہ یہ ضرورت ”وجوب“کی حد تک پہنچ چکی تھی کہ پردہئ غیب سے کوئی ”مرد مؤمن“اپنے دل درد مند اور فکر ارجمند کو لے کر نمودار ہو اور اس لٹے پٹے ہوئے کارواں کو یک جا کر کے تازہ دم کرے؛اورنہ صرف گفتگو کے ذریعہ بلکہ عملی اقدامات کو بروئے کار لاکر ان میں ”اسپرٹ“بھرے اور ان کے تن مردہ میں روح پھونک دے تاکہ یہ قوم جو مجموعی اعتبار سے بے حس وحرکت پڑی ہوئی ہے اورجو کچھ مقسوم میں ہے اسی پر ”راضی برضا“رہنے اور اسے اپنا مقدر کہہ کر”صبر وشکر“کا مظاہرہ کررہی ہے وہ پوری طرح صحت یاب اورفکری طور پر بیدار ہوکرخود کو ”مرد آہن“ ثابت کر سکے اور اپنے وجود کی اہمیت اس انداز میں بتا سکے کہ جو ”ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا“ہیں وہ ایک نئے جوش اور تاریخ ساز ولولے کے ساتھ اٹھیں اور خود کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کے بہ جائے اپنے نوشتہئ تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے تحریر اور چند کلیوں پر قانع ہونے کے بہ جائے”علاج تنگیئ داماں“کی فکرو تدبیر بھی کرسکیں۔
غرض یہ کہ سیاسی میدان میں کسی ایسے مستانے کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جارہی تھی جوبگڑے ہوئے ”دستور مے خانہ“ میں تبدیلی لاکر اپنے نئے لائحہ عمل اور سیاسی فہم وتدبر کے ذریعہ  اس ”قوم“ کے گیسوئے برہم کو سنوار کر سکے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے درد کے درماں  کے لئے بارگاہ ایزدی میں آپ کو قبول کرلیا گیاجس کا ظہور مسلمانان ہند کے ذریعہ آپ کی ذات کو سیاسی رہ نمائی کے لئے منتخب کئے جانے کی صورت میں ہوا۔بلاخوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا کی شخصیت نہ صرف سیاسیات میں ایک اہم مقام کی حامل  تھی بلکہ ان کی ذات گرامی اس باب میں نہایت ممتاز حیثیت بھی رکھتی تھی۔یہ صرف ایک نوخیز طالب علم کی مبالغہ آمیزرائے نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کے نام ور‘مقتدر اور مسلم الثبوت علماء نے بھی کھل کران کے اس ”وصف خاص“کا واضح انداز میں اعتراف کیا ہے۔
یوں تو مولانا کی زندگی کاہرلمحہ‘تمام چلت پھرت اورساری تگ ودواعلاء کلمۃاللہ‘تحفظ شریعت‘مسلمانوں کے تشخص اور ان کے شناخت کی بقاء کے لئے گویاوقف تھے لیکن باضابطہ اور مرتب انداز میں اس کام کا آغاز تب ہواجب کہ مولانا الہ آباد میں مقیم  اور مدرسہ سبحانیہ میں علم ومعرفت کے گراں مایہ یواقیت ولآلی مستفیدین کے آگے لٹانے میں مصروف تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے ظرف کے بہ قدر اسے دامن  شوق میں سمیٹ رہاتھا۔طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس وقت آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر رہی تھی اور مولانا پوری جاں فشانی کے ساتھ ان کے دامن طلب کو علم وحکمت کے تابندہ جواہر سے بھر رہے تھے۔ان ہی دنوں زاہد خاں دریابادی نامی ایک شخص مولانا سے اکتساب فیض کے لئے آیا کرتے تھے‘وہ انگریزی زبان سے واقف تھے اور انگریزی اخبارات مولانا کوپڑھ کر سنایا کرتے جس میں عالم اسلام کی دگر گوں صورت حال سے متعلق نہایت تشویش ناک خبریں ہوا کرتیں؛مولانا جب یہ سب سنتے تو تڑپ اٹھتے اور آپ کی مفکرانہ طبیعت یہ سوچ کررنجیدہ‘ملول اور بے چین ہو جایاکرتی کہ:
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پہ ہوگااس کاامتحاں کب تک؟
آپ کی بے کلی یہ کہتی ہوئی نظر آتی کہ:
یہ فکر مجھے چین سے سونے نہیں دیتی
اب کون میری قوم کو بیدار کرے گا
اسی خلش اور عالم اسلام کی اسی بے کسی وبے بسی نے آپ کو مضطرب کر دیااور میدان سیاست کو اپنی جولان گاہ کے طور پر منتخب کرنے کو مجبور کردیا۔چوں  کہ یہ لابدی حقیقت مولانا کے آگے آفتاب نیم روز کی طرح آشکارا تھی اور آپ کو بہ خوبی اس کاادراک تھاکہ:
جداہودیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی
اس لئے وہ جودت فہمی اور ذکاوت ذہنی جوکبھی علمی گتھیوں کے سلجھانے میں صرف ہوتے تھے توکبھی تفسیر وحدیث کے بحر ذخار میں غواصی کرتے ہوئے نظر آتے تھے‘کبھی فقہ وادب کے گلہائے رنگارنگ کی فرحت افزاء اورسروربخش خوشبوؤں سے مشام جاں کومعطرکرتے ہوئے ملتے تھے تو کبھی فلسفہ ومنطق کی پرپیچ گھاٹیوں میں محو سفر دکھائی پڑتے تھے؛اب ان کے سمت سفر میں تبدیلی آگئی تھی اوراس شخصیت کے سفینہئ فہم و فراست نے ”صحیح رخ“پر چلنے کا فیصلہ کرلیاتھاکیوں کہ خلاق عالم نے جس کی تخلیق پوری قوم کی قیادت وسیادت کے لئے کی ہو اسے  ایک تنگ دائرے میں  محدود بلکہ محصورکب تک رکھاجاسکتاتھا؟جس کے شخصیت کی بلندی:
فلک تووسعتیں اپنی بڑھالے
مجھے اڑنے کی خواہش ہو رہی ہے
کہنے کاحق رکھتی ہواسے ایک چھوٹی سی چہاردیواری کے اندر کہاں تک مقید کیاجاسکتاتھا؟
چناں چہ مولانا نے مسلمانوں کی زبوں حالی کے  اسی کرب سے متاثر ہوکرمدرسہ سبحانیہ کو الوداع اور الہ آبادکوخیرآباد کہتے ہوئے ”گیا“کی راہ لی۔”گیا“آنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مدرسے کی بنیادڈالی تاکہ اس فانی زیست کی یہ یادگار سدا باقی رہ سکے اور اس کا نفع تا صبح قیامت صدقہئ جاریہ کی صورت میں ملتارہے نیز مدرسے کے قیام کے پس پردہ یہ مصلحت بھی کار فرما تھی کہ اس کے توسط سے عوامی رابطہ مضبوط کیاجاسکے؛آپ کو عوام کے خیالات سے واقفیت حاصل کرنے میں سہولت ہو اور آپ کی ذات سے عوام متعارف ہوجائے تاکہ ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہوئے ملکی‘ملی وسیاسی مسائل کے منجدھار سے اپنی کشتی بآسانی باہر نکالی جاسکے۔”گیا“کو مرکزعمل بناکرآپ نے پورے لگن‘جوش وجذبے‘حوصلے اور ولولے کے ساتھ عموماََ پورے عالم اسلام اور خصوصاََہندوستان کا اپنے  ”کارگاہ“ کے طور پر انتخاب کیا۔
امت مسلمہ کی حالت زار اور ان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے تئیں فکر مندی کا نتیجہ تھا کہ آپ کی اختراعی صلاحیتوں نے مدارس اسلامیہ میں اصلاحی نصاب کے اجراء‘امارت شرعیہ‘غلہ اسکیم‘علماء بہا ر کی متحدہ تنظیم ”انجمن علماء بہار“ کے قیام اور ایسے ہی متعدد  رفاہی تنظیموں وفلاحی کاموں کو اپج دیا۔”انجمن علمائے بہار“کے قیام کے وقت مسلمانوں کو نہایت پر آشوب حالات کا سامنا تھا؛یہ وہ زمانہ تھا جب کہ شیخ الہندمولانا محمود الحسن دیوبندی‘مولاناابوالکلام آزاداور علی برادران جیسے قائدین حریت ”ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ“کے تحت اسیری کے دن کاٹ رہے تھے۔ان کی رہائی کے لئے کوئی تحریک تو کیا چلتی اور اس کے خلاف کوئی آواز تو کیا اٹھتی‘لوگ ”خداوندان فرنگ“کے خوف سے ان کے نام لینے سے بھی خائف رہتے تھے۔لیکن ”انجمن علمائے بہار“نے ان مسلم قائدین کی رہائی کے لئے صدا بلند کی تومولانا کے اس جرأت مندانہ کار نامے نے ملک کے علماء و دیگر حریت پسندوں کے  ولولوں کو دو آتشہ کردیا۔
”انجمن علمائے بہار“کے قیام کے دوسال بعد معاََ  1919  ؁ء  میں جب آپ کی تمنائیں ”جمعیۃ علماء ہند“کی شکل میں بار آور ہوئیں پھراس کے بعد”جمعیۃ“کادوسرااجلاس مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒکی تحریک اور مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کی حمایت سے دہلی کی سرزمین پرشیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندیؒ کی صدارت میں ہوا تو مولانا جی جان سے اس کی آب یاری میں لگ گئے۔مولانا ”جمعیۃ“کے ”سابقین اولین“کی حیثیت رکھتے تھے‘ اس کے روز اول سے ہی اس میں آپ کی ”خادمانہ“شمولیت رہی اور ”جمعیۃ“سے ان کا یہ ربط تادم واپسیں قائم رہاحالانکہ اس راہ میں بے شمار جاں گداز مراحل آئے اور متعدد پریشان کن مواقع نے ان کی راہ روکنا چاہالیکن جب بھی ان کے پاؤں کے چھالوں نے منزل کی دوری کا شکوہ کیاتو انہوں نے بہ جائے حوصلہ ہارنے کے ایک نئے ولولے کا مظاہرہ کیااورآبلہ پاہونے کے باوجود ”جمعیۃ“کے لئے دیوانہ وار چلتے رہے‘آپ کے عزم کی بلندی اورارادے کی پختگی کو دیکھ کرمتعجب نگاہیں بے اختیار کہہ اٹھتیں:
اولوالعزمان دانش مند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریابہاتے ہیں
پھر 4/ستمبر 1920؁ کو کلکتہ کی کانفرنس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جانب سے پیش کئے گئے ”تحریک عدم تعاون“کومنظوری حاصل ہو گئی تو چوں کہ ”تحریک خلافت“اس سے پہلے منظور ہو چکی تھی اور اپنی منزل کی جانب محو سفر تھی اس لئے اب ”تحریک عدم تعان“نے پورے ملک کے اندر ایک انقلابی کیفیت بپاکردی تھی۔مولانا ان دونوں تحریکوں میں نہ صرف پیش پیش رہے بلکہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہنداور خصوصاََ مسلمان بہار کو منظم اور متحد کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بھی یہ تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور ”امارت شرعیہ“-جو مولاناکا ایک دیرینہ خواب تھااور اس کے لئے آپ برسوں تگ  ودو میں مشغول رہے-کے قیام کی راہ میں حائل دشواریاں بھی دور ہٹتی ہوئی محسوس ہو نے لگیں اور بڑی حد تک اس کے لئے راہ ہموار ہونے لگی۔یہاں تک کہ روز وشب کی جاں گسل کوششوں اور جی توڑ محنتوں نے رنگ لانا شروع کردیااور بالآخر 1921 ؁ء میں ”امارت شرعیہ“وجود پذیر ہوا جو مولاناابوالمحاسن محمد سجادؒکے حسن تخیل‘مولاناابوالکلام آزادؒ کی توثیق وحمایت اور قاضی احمد حسین ؒ کے کاوشوں کا ثمرہ تھا۔
اس کے بعد جب ”مانٹگو چیمس فورڈ ایوارڈ“کے مطابق جب ہندوستان کے لئے نیا قانون وضع کیا گیا اور اس کی تنفیذ عمل میں آئی تو صوبائی ومرکزی اسمبلیوں کے انتخابات جے سلسلے میں مختلف مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔”تحریک خلافت“اور ”تحریک عدم تعاون“کے دوران مسلمانان ہند نے ایک دوسرے سے مربوط ہو کر مکمل اتحاد کامظاہرہ کیاتھالیکن جب یہ تحریکیں دم توڑ گئیں تو کانگریس کی مکارانہ پالیسیوں نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا شروع کردیاتھا یہاں تک کہ انتخابات میں بھی مسلم حلقوں کو نظر انداز بلکہ پس انداز کرکے انہیں مزید زک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔گو کہ مسلمانان بہار کانگریس کے اس متعصبانہ رویے سے حد درجہ بد دل اور ناراض تھے مگر دوسرے صوبوں کے مسلمانو ں کی طرح کاکانگریس کی مخالفت پر کھڑے نہیں ہوئے تھے جس کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ”مسلم لیگ“کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم تنظیم یاپارٹی نہ تھی۔
جب مرکزی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا تو پرانے”خلافتی“”لیگی“اور”جمعیتی“ذمہ داران کی مدد سے”مسلم یونیٹی بورڈ“تشکیل دے کرہندوستان کی آزادی کے لئے مر مٹنے والے اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار مسلمانوں کو انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اس ”یونیٹی بورڈ“سے الیکشن لڑنے والے چار میں سے تین نے اپنی جیت درج کروائی۔جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی جب صوبائی اسمبلی کے الیکشن کاوقت آیا توکانگریس کو مسلم حلقوں کے متعلق نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے پوری دور اندیشی کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑا۔پھر بھی کانگریس نے ”امارت شرعیہ“کے ساتھ جانے کے بہ جائے ”مسلم لیگ“کے تعاون سے انتخاب لڑنے کو ترجیح دیا۔چناں چہ مسٹر محمد علی جناح نے بہار میں ”مسلم لیگ“کو استحکام بخشنے کی خاطر بہار سے کچھ مخصوص و معروف چہروں کا انتخاب کرکے اپنے پارلیامینٹری بورڈ میں بھی شامل کر لیا۔کانگریس اور مسلم لیگ کے اس اتحاد کی وجہ سے ”امارت شرعیہ“کو یہ مشکل پیش آئی کہ”امارت شرعیہ“ جہاں ”تحریک خلافت“میں شامل ہوکربہترین کار کردگی کے سبب مسلمانوں کی حمایت اور ان کا اعتماد حاصل کر چکی تھی وہیں ”مسلم لیگ“اس تحریک کی مخالفت کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر چکی تھی یہی وجہ تھی کہ مسلمان ”مسلم  لیگ“اور مسٹر جناح سے بد ظن بلکہ بڑی حد تک متنفرہو چکے تھے۔ایسے نازک ترین حالات میں مسلمانوں کو ایک بار پھر ایسی جماعت کے ہاتھوں سونپ دینا جوان کے جذبات کا پاس ولحاظ کئے بغیرفیصلہ کرتی ہواور اس کی قطعاََپرواہ نہ کرتی ہوکہ اس فیصلے سے کن احساسات کو چوٹ پہنچے گی اور دلوں کے کتنے نازک آبگینوں کو ٹھیس لگے گی؛گویا خود ”امارت شرعیہ“کے لئے خود کشی کے مرادف تھا۔ذمہ داران ِامارت ذہنی کش مکش مین مبتلا اور گو مگو کی کیفیت سے دوچار تھے۔
چناں چہ مولانا نے اس پیچیدہ اور بظاہر لاینحل سے نظر آنے والے اس مسئلے پرغوروخوض اوراس کے حل کی تدبیر کرنے کی غرض سے ”امارت“کے زعماء کی میٹنگ بلائی جس میں دو فیصلے لئے گئے۔وہ دواہم ترین فیصلے یہ تھے:پہلایہ کہ”امارت شرعیہ“مسلمانوں کی سیاسی رہ نمائی کے لئے خود آگے بڑھے اورالیکشن کی مہم کو سر کرنے کے لئے ایک نئی پارٹی تشکیل دی جائے؛اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی دوسری مجلس”امارت شرعیہ“کے اصول و ضوابط کے مطابق تشکیل دی جائے تو”امارت“اس کی حمایت کرے گی۔اس فیصلے کو عملی شکل دینے کے لئے ”امارت شرعیہ بورڈ“قائم کیاگیااورمولانانے اس میں ”امارتی“،”خلافتی“اور”جمعیتی“کارکنان کے علاوہ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ اور درست نہج پر چلنے و سوچنے والے طبقے کو بھی شامل کیا۔پھر ان سب کے مشورے اور تعاون سے”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کاقیام عمل میں آیاتاکہ آئندہ الیکشن میں ”مسلم لیگ“کے ساتھ چلنے کے بہ جائے اسی پارٹی سے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا جا سکے۔
”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے تاسیسی اجلاس کاانعقاد۴۱/ستمبر 1934 ؁ ء کو پٹنہ کے ”انجمن اسلامیہ ہال“میں جمعیۃ العلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا  احمد سعید دہلوی کے زیرصدارت ہوا۔اس تاسیسی اجلاس میں مولانا کے صدہا انکار کے باوجود آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔اس کے دو مقاصد کو سب سے اہم قرار دیاگیا۔پہلا یہ کہ ملک کے مکمل آزادی کی حمایت کرنااور دوسرادینی امور میں امیر شریعت کے ہدایات کوقبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا۔پارٹی کے اراکین عاملہ کی کل تعداد اکیس تھی جن میں مولاناابولمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کوصدر‘مسٹر محمود بارایٹ لاء(پٹنہ)کوسکریٹری‘مولانامنت اللہ رحمانیؒ کو پروپگنڈہ سکریٹری اورجسٹس خلیل احمد و مولوی محمد اسماعیل تاجر (پٹنہ)کوخازن کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ان ذمہ داروں کے علاوہ چار نائبین صدر‘چار جوائنٹ سکریٹری اور ایک پروپگنڈہ سکریٹری بھی متعین کئے گئے۔(یہ تمام تفصیلات ہفت روزہ”نقیب“کے خصوصی شمارہ”مولاناسجاد نمبر“میں صفحہ 72 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔)
عین اسی وقت بہار میں مسٹر عبدالعزیز نے”مسلم یونائیٹید پارٹی“اورمولانا شفیع داوٗدی نے ”احرارپارٹی“کے نام سے دوالگ الگ پارٹیاں بنالیں۔چوں کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانے کااندیشہ تھا اس لئے مولانا نے دونوں پارٹیوں کو ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“میں ضم کرنے کی حتی المقدورکوشش کی لیکن مذکورالصدر دونوں پارٹیوں کے سربراہان اپنی بات پر اڑے رہے اوراس کے لئے تیار نہ ہوئے بالآخر کوئی نتیجہ نہ نکلتے دیکھ کر ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کو تنہا اپنے بوتے پر انتخاب لڑنے کے لئے کمر کس لیناپڑا۔”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“چوں کہ مسلمانان بہار کے لئے امید کی کرن بن کر نمودار ہوا تھااس لئے اس کے حوالے سے ان میں کافی جوش وخروش پایا جارہاتھایہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کی صرف نیک مشوروں سے ہی نہیں بلکہ جان ومال ہر طرح سے مکمل اعانت کی تھی۔مسلمانوں کی اس بھرپور حمایت وتعاون کااثر یہ ہوا کہ انتخابی نتائج مخالفین کے لئے نہایت ہی حیران کن وحوصلہ شکن جب کی حامیین وموء یدین کے لئے حددرجہ امید افزاء ثابت ہوئے۔
انتخابات کے اس چونکادینے والے نتیجے کے بعد نہ صرف یہ ہوا کہ ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“نے بہار کے پچاس فی صدمسلم سیٹوں پر کام یابی حاصل کی بلکہ یہ پارٹی کانگریس کے بعد سب سے بڑی پارٹی کے طور پرابھری۔پارٹی کی زبردست مقبولیت میں ”امارت شرعیہ“کی بہترین کارکردگی‘ مولانا کی ترقی پسندانہ حکمت عملی‘ اوران کے مخلص رفقاء کاروبے لوث معاونین کی ان تھک کوششوں کوبہت زیادہ دخل تھا۔(پارٹی کے کامیاب امیدواروں کی فہرست بھی ”نقیب“کے ”مولاناسجاد نمبر“میں دیکھی جاسکتی ہے۔) ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے مقبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈلٹا اپنی کتاب ”فریڈم موومنٹ ان بہار“میں رقم طراز ہیں کہ: ””مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے الیکشن مینی فیسٹو میں زرعی اصلاحات اور مہاجنی لوٹ پر روک لگانے کے متعلق مسلم لیگ اور کانگریس سے زیادہ ترقی پسندانہ مطالبات تھے۔“ چوں کہ1937؁ء کے صوبائی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 152/میں سے 98/نشستیں ملی تھیں اس لئے گورنر بہار نے کانگریس کووزارت تشکیل دینے کے سلسلے میں مدعو کیامگر چوں کہ گورنر بہار نے کانگریس کی جانب سے پیش کئے گئے شرائط کو ماننے سے انکار کردیا اس لئے کانگریس بھی اس پیش کش کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔اب دوسری پارٹی جو کانگریس کے بعد اکثریت میں تھی وہ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“تھی‘چاناں چہ وزارت کی تشکیل کے لئے اسے ہی بلایاگیا۔مولانانے تشکیل وزارت سے قبل اراکین عاملہ کی میٹنگ طلب کی۔میٹنگ کے شرکاء میں سے کچھ رائے تھی کہ وزارت بنالی جائے جب کہ کچھ لوگوں کے خیالات اس کے بر عکس تھے۔ بہ ہر حال:بعد بحث و تمحیص کے وزارت قبول کر لی گئی اوریکم اپریل ۷۳۹۱ ؁ء کومسٹر محمد یونس نے بہار کے ”وزیر اعظم“کاحلف لے لیا۔مولانا کی سرپرستی میں بنائی مسٹر محمد یونس کی وزارت گو کہ ایک سو بیس ہی دن قائم رہ سکی اور گورنر بہار اور کانگریس کے درمیان مصالحت ومفاہمت کے بعد کانگریس نے وزارت قبول کر نے کی حامی بھر لی تو مسٹر محمد یونس کو وزارت عظمی سے مستعفی ہوناپڑا مگر اس تھوڑی مدت اور قلیل عرصے میں ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“نے بہتیرے فلاحی کام انجام دئیے جو تاریخ کے سنہرے اوراق کی زینت ہیں۔ مولانا کاسیاسیات میں آنے اور اسے ”منہ لگانے“کامقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھاکہ احکام شرعیہ کا نفاذ کلی طور پر نہ سہی لیکن کم از کم شعائر اسلام اور مسلمانوں کا تشخص حالات کی ستم ظریفی کے نذر نہ ہونے پائیں اور یہ پوری قوم اپنے مذہبی احکامات پر مکمل آزادی اور کسی آئینی بندش کے بغیرعمل کرسکے۔اس ”آزادی“ کے لئے مولانا کی دوررس نگاہ میں اس کے علاوہ کوئی کوئی سبیل نہ تھی کہ باہر سے غل غپاڑہ مچانے کے بہ جائے باضابطہ سیاست میں شمولیت اختیار کی جائے اور پوری ثبات قدمی کامظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کئے جائیں تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے آواز کی دھمک ایوان حکومت کے بلند وبالا دیواروں پر بھی محسوس کی جاسکے اورمسلمانوں پر پڑنے والی آئینی زد کا مداوا بھی بسہولت ممکن ہوسکے ورنہ یوں ہی صرف شور شرابہ کارویہ اپنانے سے: کون سنتاہے فغان درویش؟
 مولانا سیاست کی باگ علماء کے ہاتھوں میں دیکھناچاہتے تھے اور انہیں بہ خوبی اس کا علم تھاکہ علماء ہی میدان سیاست میں قوم کی بہترین رہ نمائی وسربراہی کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔خدا مغفرت کرے شاعر مشرق کی کہ وہ اگر مولانا کی ذات‘ان کے عزائم‘منصوبوں اور ان کے سیاسی کارناموں سے واقف ہوتے تو انہیں ہرگز یہ نہ کہنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی کہ:
 قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
 کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام؟
 کیوں کہ کہ مولانا بہ یک وقت ”دو رکعت کے امام“بھی تھے‘بوریہ نشیں مدرس بھی اور میدان سیاست کے سرخیل بھی! مولانا کے سیاسی تبحر اور آئین پر بے پناہ دست رس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتاہے کہ مولانا شفیع داوٗدی اور مولاناکے فکری اختلاف کی وجہ سے حالات کچھ سنگین سے ہوتے چلے گئے اور بعض حضرات کے مطابق یہ اختلافات رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی مخالفت کی صورت اختیار کرتے چلے جارہے تھے۔اس لے پٹنہ کے کچھ مخلصین نے اس صورت حال سے نمٹنے اور اس الجھتے معاملے کو سلجھانے کی غرض سے باہمی مصالحت کی راہ نکالنی چاہی اور اس کے لئے دونوں یعنی مولاناابولمحاسن اورمولانا شفیع داوٗدی کو ایک جگہ مدعو کیااور دونوں حضرات سے یہ کہا گیا کہ ”آپ آپسی گفتگو کے ذریعہ ایک دوسرے کے نقطہائے نظر سے واقف ہوں تاکہ یہ اختلافات ختم ہوں اور اسی بحث و تمحیص کے ذریعہ مسلمانان ہند کے لئے کوئی اچھی سی راہ نکل سکے۔“مجمع اچھا خاصا تھا جس میں ایک معتد بہ تعداد ذی فہم‘صاحبان بصیرت حضرات کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کی بھی تھی۔یہ ”مصالحتی مجلس“ڈاکٹر سید عبدالحفیظ فردوسی کے کوششوں کا ثمرہ تھی‘ حقیقی معنوں میں وہی اس کے منتظم اعلی تھے اور یہ مصالحتی کوشش ان ہی کی ذہنی اپج تھی۔گفتگو شروع ہوئی تو ”زلف لیلیٰ“کی طرح دراز سے دراز تر ہوتی چلی گئی اور جس گفتگو کا آغاز عشائیہ کے بعد ہواتھا وہ فجر تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد کرنے میں کام یاب نہ ہو پائی تھی‘مجمع اب بھی پورے سکون ووقار اور نہایت دل چسپی کے ساتھ فریقین کے موقف کی درستگی اور دلائل کی قوت کے پرکھنے میں مصروف تھا۔مولانا شفیع داوٗدی کو اس وقت لاہور کا سفر درپیش تھا کہ دوران گفتگو اسی سلسلے میں دنیا کے دیگر ممالک کے سیاسی نظام کی طرف بات چل پڑی‘مولانا شفیع داوٗدی اس کے متعلق کچھ کہناچاہتے تھے کہ مولانا نے ٹوکا اور پھر ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے آئین وقوانین کے بارے میں بتلانا شروع کیا کہ:فرانس کا نظام یہ ہے‘اٹلی میں یہ قانون چلتا ہے‘امریکہ میں یہ آئین نافذ ہے‘ترکی کیاندر یہ سسٹم رائج ہے اور مولانا تھے کہ بے تکان بس بولتے ہی چلے جارہے تھے؛مجمع حیرانی و استعجاب کی تصویر بنے انہیں دیکھ رہا تھا۔”کانسٹی ٹیوشن“کے متعلق معلومات سے پر اس گفتکو کو سن کرنہ صرف وہاں موجود سننے والوں کو بلکہ مولانا شفیع داوٗ دی کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ مولانا صرف ایک روایتی عالم اور مذہبی معلومات پر اکتفاء کرنے والی شخصیت نہیں ہیں بلکہ آپ کی دقیقہ رس نگاہ اقوام عالم کے اصول وقوانین پر بھی زبردست گرفت رکھتی ہے۔آپ کی گفتگو کے اس رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاتھاکہ:
 انگشت بہ دنداں ہیں زمیں‘چاند‘ستارے
 مولانا کی سیاست ہمیشہ شریعت کے آگے دست بستہ کھڑی رہتی‘کبھی بھی کسی بھی موقع پر ان کی سیاست ان کے شریعت پر غالب نہیں ہو سکتی تھی بلکہ شریعت پر حملہ آور ہونے کو سونچ بھی نہیں سکتی تھی۔آپ کی سیاست منافقت‘کذب بیانی اور فریب کاری اور مداہنت کے رہین منت نہیں تھی بلکہ ہر موقع پر آپ نے: آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اور ہزار خوف ہو‘لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہاہے ازل سے قلندروں کا طریق کاعملی ثبوت پیش کیا۔آپ حق بات کہنے میں کبھی کسی ”مصلحت“کے شکار نہیں ہوئے بلکہ تمام ”مصلحتوں“کو بالائے طاق رکھ کر حقائق کو بیان کرنے میں کسی پس وپیش اور لومۃ لائم کی پرواہ کئے بنازبان حال سے: جو سچ سمجھتاہوں وہی کہنے کاعادی ہوں میں اپنے”شہر“کاسب سے بڑا ”فسادی“ ہوں کہتے رہے۔ انہوں نے ان بیرسٹروں کوبھی دنداں شکن جواب دیاجنہوں نے سیاست پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور میدان سیاست کے تمام حصوں پر”ریزرو“کابورڈ لگاکر خوداس پرقا بض رہناچاہتے تھے۔انہوں نے ایسے وقت میں نہ صرف سیاست کے رخ کو تبدیل کردیا بلکہ ایک نئی طرح ڈالی جب کہ علماء کے لئے سیاست کو”شجر ممنوعہ“قرار دے دیا گیا تھا اور مولانا عبداللہ عباس ندویؒ کی زبان میں ”ایک بڑا گروہ نام نہاد دانش مندوں کا تھا‘جس نے سیاست کاحق ان بیرسٹروں کے لئے خاص کر رکھاتھا جوانگلستان سے چودہ ڈنرکھاکے آئے ہوں۔“ یہ تھی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ والرضوان کے سیاسی کارناموں کی مختصر روداد‘ادنی جھلک اور معمولی سا عکس ورنہ: طویل عمر درکار ہے اس کے پڑھنے کو ”ہماری“ داستاں اوراق مختصر میں نہیں مولانا کی حیات بابرکات نہ صرف قابل صد ستائش ہے بلکہ ان کی بلندوبالاذات لائق تقلید بھی ہے یہی وجہ ہے کہ دیدہ وروں نے ان کی سیاسی بصیرت کو دیکھ کر اسی وقت کہہ دیاتھا کہ:
 غبار راہ سے کہہ دو سنبھالے نقش قدم
 زمانہ ڈھونڈے گاپھر ان کو رہ بری کے لئے
(پیش نظر تحریر میں بیش تر  ”حیات سجاد“اور”مقالات سجاد“سے استفادہ کیاگیاہے۔)
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:اپریل 2014ء

ویلنٹائن ڈے:یہ محبت ہے یا پھر توہین ِمحبت؟

ہمیں‘خصوصاََ ہماری نوجوان نسل کومغربی تہذیب نے چہار جانب سے اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھاہے۔وہاں کی بدبودار ہواؤں میں بھی انہیں باد نسیم کے جھونکوں کا لطف ملتا ہے۔ان کی نگاہ نارسا میں جس چیز پر مغربیت کا لیبل چسپاں ہو جائے خواہ وہ عقل وخرد کی رو سے بھی حرکت مذموم کے زمرے میں آتا ہو‘اس سے لاتعداد سماجی ومعاشرتی برائیاں برائیاں بھی کیوں نہ پنپ سکتی ہوں لیکن چوں کہ اس کے  اوپر مغربیت کا لبادہ ہے اس لئے:
 اس کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
چنانچہ اسی ذہنی محکومی اوراور فکری غلامی نے نوجوانوں سے ان کی حس تمیز کی قوت کو سلب کرلیا ہے اورانہیں خوبی و خامی کے درمیان امتیاز کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔انہیں مغرب سے ”امپورٹ“ کی ہوئی ہر چیزخواہ وہ طرز معاشرت ہو یا طریقہئ رہائش‘عریانیت کی منہ بولتی تصویر وہاں کے ملبوسات ہوں یاطوفان بد تمیزی اور فحاشی سے پر وہاں کے تہوار غرض یہ کہ ان کے محبوس و مقید عقل کے مطابق کسی شے پر مغربی ہونے کی مہر ہی اس کی عمدگی کی دلیل ہے جس کے بعد اس کے کام یاب اور نفع بخش ہونے کے لئے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے ذریعہ ہماری اخلاقی قدریں تباہ ہوں یا ہماری روایات کا جنازہ نکل جائے‘انہیں فکر ہے تو بس اس بات کی کہ کس طرح مغرب پرستی اور ان کی تقلید میں ہم دوسروں سے بازی لے جاکران کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے ”اسٹیٹس“کو اونچا کر سکیں۔انہیں اس کا ذرا خیا ل نہیں کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ:
معیار زندگی کو بڑھانے کے شوق میں
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا
مغرب سے درآمد کئے گئے بے شمار ناپاک و کریہہ رسوم  ورواج اورتقریبات و تہوار میں سے ایک نہایت بد ترین تہوار”ویلنٹائن ڈے“بھی ہے  جو ہر سال 14/فروری کو مکمل بے حیائی‘عریانیت اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منایا جاتا ہے۔جس کی قباحت و شناعت کے اندازے کے لئے محض اتنی  بات کافی ہے کہ یہ تہوار”ویلنٹائن“نامی ایک بدکار،زانی اور بد بخت پادری جانب منسوب ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس دن کو ”یوم عشاق“کا نام دے کرلفظ عشق کو بدنام اور لفظ کی تذلیل کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دن محبت کرنے والوں کا ہے اور یہ اظہار محبت کا نہایت مناسب ترین موقع ہے۔ جائے صد افسوس ہے کہ کل تک یہ تمام باتیں اغیار کر کے منہ سے سننے میں آتی تھیں اور وہی اس دن کی ناجائز وکالت کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر رفتہ رفتہ یہ باتیں ان سے بھی سنی جانے لگیں اور یہ طرز گفتگو ان کا بھی ہوتا چلا جارہا ہے جو مشرقی ہونے کے دعوے دار ہیں اور اپنی مسلمانی کا شب وروز دم بھرتے رہتے ہیں لیکن در حقیقت انہیں اپنے مشرقی ہونے پر ندامت اور اپنے مسلمانی پر پشیمانی ہے‘جو اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر ناچنے میں ذلت وحقارت کے احساس سے دوچار ہونے کے بہ جائے فخر و مسرت کے جذبات سے لب ریز نظر آتے ہیں‘جو مغربیت کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور زبان حال سے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ:
انہی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
انہی کے مطلب کی کہ رہا ہوں‘زبان میری ہے بات ان کی
اب ان عقل کے اندھوں کو مخاطب کرتے ہوئے سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہواتو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
ذراکوئی ان سے پوچھے کہ کیا محبت اسی کا نام ہے کہ کسی بہن کے آبگینہئ عفت کو چور چور کر دیا جائے؟کیا عشق اسی کا نام ہے کہ کسی بیٹی کی ردائے عصمت کو سربازار تار تار کر دیا جائے؟اور کیا پیار اسی جذبے کا نام ہے کہ کسی گھر کی عزت کہی جانے والی دوشیزہ کی پاکیزگی کے دامن پر دھبے لگا کر اسے داغ دار کر دیا جائے؟اس طرح کی  الٹی منطق سمجھانے والوں اور اس دن کو ”یوم محبت“ کے طور پر”سیلیبریٹ“ کرنے والوں کویہ ضرور سوچنا چاہئے کہ یہ ناپاک حرکتیں جوآج ان کے ہاتھوں سرزد ہورہی ہیں اگر اسی ذہنیت کے مالک کسی منچلے نے ان کی بہن یا بیٹی کے ساتھ اس طرح کی چھچھوری حرکتیں کرنے کی کوشش کی تو کیا ان کی غیرت انہیں جھنجھوڑ کر نہیں رکھ دے گی اور ان کا وجود اس بد قماش کے لئے اس برق تپاں کی مانند ثابت نہیں ہوگا جو اس کے جسم وجان کی پوری عمارت پل بھر میں خاکستر کرنے کو بے تاب ہو؟اگر اس کی عزت نفس یہ گوارا کرنے کو تیار نہیں ہے تو یہ تصور کس طرح کر لیا جاتا ہے کو دوسرا اپنے بہن‘بیٹی کی عزت نیلام ہوتے دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا‘کیا یہ”لینے کے باٹ اور‘دینے کے باٹ اور“والی بات نہیں ہے؟شاید ایسے ہی کسی موقع پر شاعر نے اپنے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ:
کانٹوں کو بچھاکر یار مرے گلشن کی توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
سوال یہ ہے کہ محبت اور اظہار محبت  کے لئے اسی دن کا انتخاب کیوں؟کیا اسلام نے ہمیں محبت کے حق سے محروم کر رکھا ہے؟کیا اسلام میں عشق کی ممانعت ہے؟ہرگز نہیں بلکہ اسلام ہمیں محبت کی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ محبت جو پاکیزہ‘بے لوث اور خلوص کے ساتھ ہو؛ایسی محبت کہ جب ایک ماں اپنے بچے کے لئے اس فکر میں جاگتی رہی کہ اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک اس کا نوجوان بیٹا ابھی گھر نہیں لوٹا ہے‘جب ایک باپ کھانے سے اپنے ہاتھ صرف اس انتظار میں روکے رکھے کہ اس کا لخت جگر بھوکے پیاسے ا بھی آتاہی ہوگا‘جب ایک بہن بھائی کے  لئے اپنی نیند قربان کر کے اس کی راہ تکتی ہو‘جب ایک بھائی اپنی پسندیدہ ومرغوب چیز پر دوسرے بھائی کو ترجیح دے‘جب ایک بیوی  اپنے زیست کی دشوار گزار گھاٹیاں اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے بے چوں چرا طے کرلے‘جب ایک شوہر اپنی نوجوانی  کلفتوں کاسامنا کرتے ہوئے  پردیس میں صرف اس لئے بسر کرے کہ اپنے بیوی بچوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ سکے کیوں کہ یہی حقیقی محبت‘ اس کی اصل معراج  اور اس مقدس جذبے کے اعلی ترین نمونے ہیں نا کہ وہ محبت جو صرف وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کی جائے اور اس کے زیر اثر کسی شفاف دامن پر چھینٹے اڑانے سے بھی پرہیز نہ کیا جائے اور ضرورت پوری ہوتے ہی ترک تعلق کے بہانے تلاش کئے جائیں۔بظاہر ”آئی لو یو“(مجھے تم سے محبت ہے)کے دعوے کئے جائیں جب کہ دل ہی دل میں ”آئی نیڈ یو فور سم ٹائم“(مجھے تھوڑے وقت کے لئے تمہاری ضرورت ہے)کہا جائے۔محبت تو ہمیشہ دائمی ہوتی ہے جو ”یوز اینڈ تھرو“(استعمال کرو اور پھینکو)کے بہ جائے ”ود یو آلویز“(ہمیشہ ہی تمہارے ساتھ)کا تقاضہ کرتی ہے۔یہ کون سی محبت ہے جو صرف ہوس کے پجاریوں کے لئے سامان تسکین ہو‘جس محبت ثبات ہو نہ استحکام‘جو کسی ایک کی محبت پر قانع ہونے کے بہ جائے سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہویقیناََ اس ”ہرجائی محبت“کو محبت کا نام دینا بھی اس پاکیزہ جذبے کی تحقیر وتذلیل ہے۔یہ عشق در حقیقت اس فِسق کا پیش خیمہ ہے جو ہمیشہ ہی اپنے جلو میں انارکی‘نحوست‘تعفن اور گندگی لئے آتا ہے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات!
***
____________________________
تاریخ تحریر:فروری2014ء

جشن سال نو:مجھ کوتو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

وقت اپنی مقررہ رفتار کے مطابق نہایت سبک سیری کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے‘ شب وروز کا سفر مسلسل بغیر کسی توقف اور ٹھہراؤکے اپنے متعینہ نظام کے ساتھ جاری ہے۔ہر جاتا ہو ادن دعوت احتساب دے جاتا ہے اور اعمال کا جائزہ لینے کی نصیحت کر جاتا ہے۔یقیناََ وقت کی معمولی تبدیلیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں نہ ہی دن رات کا یہ گردشی نظام کسی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ہاں وہ لمحہ ذخیرہئ حیات کی حیثیت رکھتا ہے جس میں فکر ونظر کی دنیا آباد ہوجائے‘روح کے گھور اندھیرے چھٹ جائیں اور وہ نورخداوندی حاصل ہو جائے جسے مؤمن کی بصیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘دل کی دنیا کا جمود ٹوٹے اور اس میں حرکت ونشاط پیدا ہو جائے‘ منزل کی راہیں روشن اور شعور کے دریچے وا ہو جائیں ورنہ یہ وقت بذات خودکچھ بھی نہیں ہے‘نہ موقع ِتاسف نہ ہی محل شادمانی!
پھر ایک نئے سال کا آغاز ہوا جس کی آمد پر جشن منائے جا رہے ہیں‘چہار جانب سے موسیقی کی بے ہنگم آواز اس طرح سنائی دے رہی ہے کہ گویا کانوں میں کسی دوسری آواز کو داخل ہونے کا موقع ہی نہ مل رہاہو‘ایک دوسرے پر پھول برسائے جا رہے ہیں‘تفریحات کاموسم اپنے عروج پر ہے‘جام پر جام لنڈھائے جارہے ہیں اور راگ رنگ کی محفلیں سجائی جارہی ہیں‘ان کے شور وغوغا میں سیدھے رستے کی جانب ر ہ بری کرنے والوں کے دل سے نکلنے والی پکاربھی صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔بھلا اب اس قدر واہیات اور ان سارے فضولیات کے بعد وقت ہی کہاں بچتا ہے کہ گھڑی بھر ٹھہر کر ان خر مستیوں کی”شانِ ورود“پربھی غور کیا جا سکے۔
تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ”نیو ایئر“منانے کی تقریبات کا آغاز انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا۔برطانیہ کے بحری فوج ”رائل نیوی“کی زندگی کا اکثر حصہ پانی پر ہی بسر ہوتااور وہ لمبی مدت تک بحری اسفار سے تھک کر خود کو بہلانے اورموج مستی کرنے کے نت نئے بہانوں کی تلاش میں رہتے۔چناں چہ وہ کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر خوب اہتمام کرتے‘”ویک اینڈ“مناتے‘ایک دوسرے کی اور بیوی بال بچوں کی سال گرہ مناتے‘جب یہ مواقع بھی ختم ہو جاتے تو ایک دوسرے کے جانوروں یعنی کتے بلیوں کی سال گرہ بڑے دھوم دھام سے منعقد کی جاتیں جس میں شراب و کباب کا دور چلتا اور عیاشی و فحاشی کا مکمل انتظام ہوتا۔ان ہی تقریبات کے دوران یہ رائے دی گئی کہ ”کیوں نہ ہم نئے سال کو خوش آمدید کہیں؟“۔اندھے کو کیا چاہیے؟دو آنکھیں۔پھر کیا تھا اس سال ۱۳/دسمبر کو جہاز کے ”بال روم“کو سجا دیا گیا‘شراب اور موسیقی کانظم کیا گیا۔خوب شراب پی گئی‘رقص کیا گیا اور جیسے ہی گھڑی کی سوئیوں نے بارہ بجنے کا اشارہ دیا”ہیپی نیو ایئر“کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے نئے سال کا استقبال کیا گیا۔دوسرے سال انہیں محسوس ہوا کہ شراب بغیر شباب یعنی عورت کے ادھوری اور ناقص ہے۔لہذا:جونیئر افسروں نے اپنے سینیئرافسران کودرخواست دی کہ ہم   ”نیو ایئر“کو”سیلیبریٹ“ کرنا چاہتے ہیں‘اس موقعے کے لئے ہمیں دوشیزائیں درکار ہیں تاکہ ان کے ساتھ رقص کر کے اس رات کی رنگینیوں میں اضافہ کیا جا سکے۔سینیئر افسروں نے ان کی”ضروریات“کا احساس کرتے ہوئے قریب ترین ساحل سے پیشہ ور رقاصاؤں کا بند وبست کر دیا۔پھر جوں ہی رات کے بارہ بجے جہاز کی تمام بتیاں گل کر دی گئیں‘بتیوں کے بند ہوتے ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور اس طرح نئے سال کو خوش آمدید کہا گیا۔اس کے بعد یہ بے ہودہ سلسلہ چل پڑااور شدہ شدہ اسلامی تشخص رکھنے والے افراد بھی اس کے رنگ میں رنگتے چلے گئے اور ہماری اقدار وروایات بھی اس منحوس رسم کی زد میں آتی چلی گئیں۔
ان تمام خرافات میں ہم‘اورخصوصاََ ہماری وہ نوجوان نسل بھی شریک ہے جو ہمارے آرزؤوں کے مرکز اور خوابوں کی تعبیرہیں‘آنے والے دنوں میں ”زعمائے ملت“ان ہی میں سے چنے جائیں گے اورملک وملت کی زمام ان ہی ہاتھوں کے سپرد کی جائے گی۔جن سے یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ اپنے بڑوں کے ادھورے خاکوں میں رنگ بھریں گے اور ان کے تشنہئ تکمیل منصوبوں کو پوراکرنے میں تن‘من‘دھن کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔مگر ان کی اٹھان ہی اتنی کج اور بے راہ روی کے ساتھ ہے کہ ان سے توقعات کی وابستگی سراب ریگ زار اور خیال خام معلوم ہوتی ہے۔کیوں کہ یہ  اس قدر ذہنی غلامی میں مبتلا ء اور اس درجہ اندھی تقلید کے شکار ہیں کہ مغرب سے اٹھنے والی ہر صدا انہیں ”صدائے حق“اورادھر سے ہو کر آنے والی ہر ہوا پرستش کے قابل دکھائی دیتی ہے۔جہاں کی ”روشن تہذیب“نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے‘ جہاں کی نہایت کرخت آواز میں بھی انہیں مدُھرسنگیت کی خوبیاں نظر آتی ہیں اور جہاں کی کریہ و بدبودار ہواؤں میں بھی انہیں نسیم صبح کے لطیف جھونکوں کی لذت ملتی ہے۔مغربی اداؤں پر ان کی وارفتگی اور یورپی طرز حیات سے ان کی دل بستگی کا یہ عالم ہے کہ ان کی نگاہ کوتاہ اندیش میں اقوام مغرب کی پیروی کرتے ہوئے ان کے طوروطریق کو اپنا کران کے دوش بہ دوش اور ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا ہی ترقی اور ترقی کی اصل معراج ہے۔اب انہیں کو ن سمجھائے کہ:
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پہ نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولِ ہاشمی
انہوں نے اپنی غیرت وحمیت کو انہیں سفاک ہاتھوں میں گروی رکھ دیا ہے جوان کی تباہی میں ذرا کسر نہیں چھوڑنا چاہتے اور ہر سمت سے یلغار کر کے انہیں پسپاکرنا ہی جن کا مقصد زندگی بن گیا ہے۔انہیں اپنے اسلامی تشخص پربجائے افتخار کے عار محسوس ہوتا ہے‘اسلامی احکامات کو وہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اپنی آزادی میں مخل سمجھتے ہیں۔ اسلامی قوانین وضوابط انہیں دقیانوسی خیالات کے پلندے اور علماء حق بسم اللہ کی گنبد میں رہنے والے نہایت خشک لوگ نظر آتے ہیں جو زندگی کی لذتوں سے نہ خود لطف اندوز ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں۔
حالانکہ عقل ودانش کی نگاہ سے بھی اگرسال نو کے اس جشن کو دیکھا جائے تو اس میں کہیں سے کوئی جھول نہیں رہ جاتا کہ یہ موقع نہ قہقہے لگانے کا ہے نہ تالیاں بجانے کا‘نہ موسیقی کی دھن میں خود کو گم کردینے کا نہ پکنک اسپاٹس کی زینت بننے کا‘نہ جام ومینا سے دل بہلانے کا نہ ہی رقص و سرود کی محفلیں سجانے کا بلکہ یہ موقع ہے خود احتسابی کا‘ایام ماضی کی غفلتوں پر ندامت اور افسوس کے آنسوبہاکر حیاتِ مستقبل کی فکرکرنے کا،گذشتہ سال کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کا‘راہ عمل کو طے کرتے ہوئے راستہ روک دینے والی ٹھوکروں سے سبق لینے کا‘جن سے زندگی بذات خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے ان گناہوں سے کلی طور پر توبہ کرنے کا،جو خلاق عالم کے غضب و عتاب کا سبب بنتی ہیں ان افعال شنیعہ پر پشیمان ہونے کا‘ جوکسی آبگینہئ دل کو ٹھیس پہنچانے کا ذریعہ بنی ہوں ان حرکاتِ مذمومہ سے معافی کااورآئندہ زندگی کو کسی زاہد پاک باز کی ردائے شفاف کی طرح گزارنے کے عزم صمیم کا۔
اگر یہ پوچھنا ہو کہ کیا یہ واقعی نیا سال ہے تو اس افلاس زدہ بچے سے پوچھئے جو دسمبر و جنوری کی یخ بستہ ہواؤں والی راتیں ایک ایسی چادر پر گزار رہاہے جو خود رنگ برنگے اور چھوٹے بڑے پیوندوں سے بھری پڑی ہے۔نئے سال کی حقیقت اس جاں بہ لب مریض سے پوچھئے جس پر چند ماہ پہلے بیماری کا حملہ ہوا تھا پھر اسے اسپتال میں بھرتی کروایا گیالیکن اس کی حالت بتدریج بگڑتی ہی چلی گئی اور اب وہ ICU(انتہائی نگہ داشت اکائی) میں اپنی زندگی کے آخری لمحات گن رہا ہے۔نئے سال کی سچائی اس بے کس وبے نوا مزدور سے دریافت کیجئے جو کئی دنوں سے لگاتار مزدوری کی تلاش میں نکل رہا ہے لیکن سوائے ناکامی کے اسے کچھ ہاتھ نہیں لگتااور روزانہ خالی ہاتھ، اداس چہرہ لئے واپس آجاتا ہے جہاں بیوی اور بچوں کی آس بھری نگاہیں منتظر ہیں لیکن ان کے لئے دو نوالوں کا انتظام بھی اس کے بس سے با ہر کی چیز ہے۔اگر یہ سال سچ میں نیا ہے تو یہ ساری پرانی چیزیں اس کے ساتھ ساتھ کیوں چل رہی ہیں؟پھر نئے سال نے ان کی زندگی میں کوئی انقلاب کیوں برپا نہیں کیا؟وہی غربت‘تنگ دستی‘ بیماری‘بے چارگی‘ بے کسی‘اور کس مپرسی جو پرانے سال میں اس کے مقدر میں تھے اس نئے سال میں بھی وہی اس کے استقبال کے لئے کیوں کھڑے ہیں؟
دیکھ اگر دیدہئ عبرت نگاہ ہو
***
___________________
تاریخ تحریر:جنوری2014ء

کرسمس:حقیقت خرافات میں کھوگئی

وہ قوم جو ایک بارانبیاء کے ساتھ استہزاء اور حدوداللہ میں کمی زیادتی کر کے گم راہ ہوئی تو دھیرے دھیرے اپنے محورسے ہٹتی ہی چلی گئی اور ہمیشہ کے لئے اپنے گردن میں گم رہی کا طوق ملامت  بطور قلادہ ڈال لیا۔پہلے اس نے اپنا پیغمبرکھویا پھر کتاب میں اپنی سہولت کے مطابق ترمیم کرتے رہے تاآنکہ اس کتاب میں خدائی آیات مغلوب اور انسانی عبارات غالب آگئیں اور وہ ”کتا ب منزّل“ان کی دست درازی اور خرد بردسے ”کتاب محرّف“میں تبدیل ہوگئی۔بھلا جب ان سے خدائی کتاب کی ہی حفاظت نہ ہو سکی تو وہ اپنے پیغمبر کی سیرت اور ان کے حالات کہاں تک محفوظ رکھ پاتے؟چناں چہ مرور ایام نے ان کے پیغمبر کی سیرت‘حالا ت اور واقعات کو اوراق گم گشتہ کی طرح زیر زمین دفن کر دیا۔پیغمبر کے بعد تین صدیاں بیت گئیں اور وہ اس حال میں آپہنچے کہ اس قوم کے کسی ایک فرد کو بھی پیغمبر کی تاریخ پیدائش کا علم نہ تھا لیکن پیغمر کے بعد جب کئی سو سال گزر گئے تو اچانک ان کی یوم پیدائش منانے کا سلسلہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ چل پڑا۔اس وقت اس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت تک اس قوم کے کسی ”دور بیں“کی نگاہ اور کسی ”دور رس“ کی نظر بھی نہ پہنچ سکی۔
ہوا یوں کہ ایک نوجوان نے ایسی مشعل تیار کی جوبغیر تیل ڈالے روشن رہتی‘صرف اس کے فلیتے میں آگ لگا دی جاتی اور اس کے بعدگھنٹوں اس سے روشنی حاصل کی جا سکتی تھی۔یہی وہ مشعل تھی جو بعد میں ”کینڈل“یا”موم بتی“کے نا م سے متعارف ہوئی۔اس مشعل کو امراء کے یہاں اور شاہی دربار میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔شاہی دربار کے لئے وہ مشعل بطور خاص تیار کی جاتی لیکن وہ مشعل گر نوجوان صرف اسی پر قانع ہونے کو تیار نہ تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ یہ مشعل ہر خاص وعام تک پہنچ جائے تاکہ اس کا کاروبار مزید ترقی کرے اور وہ اس کے ذریعہ اپنی دولت میں خاطر خواہ اضافہ کر سکے۔پھر اس نے اس کی ترویج و تشہیر کے مختلف طریقوں پر غور کیا‘اس کے ذہن میں متعددترکیبیں آئیں مگر پھر خود ہی اس کے ذہن نے ان تمام ترکیبوں کو مسترد کر دیابالآخر اس سلسلے میں اس نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کرنے کا سوچا جو قریبی چرچ میں بطور ”پادری“اپنے فرائض انجام دیا کرتا تھا۔پادری سے جب اس نے اپنے مسئلے کا حل دریافت کیا تو پادری نے جو ایک عقل مند اورتجربہ کار شخص تھا اس سے کہا:”تم اس مشعل کا رشتہ کسی طرح گرجاگھر اور عیسائیت سے قائم کردوکیوں کہ جو شے مذہب کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے اسے دوام مل جاتا ہے اور لوگ چوں کہ اس کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے اس کے بدلے وہ اگر پوری دنیا بھی دے دیں تو انہیں یہ قیمت ہیچ معلوم ہوتی ہے۔اگر تم اس کا تعلق مذہب کے ساتھ مربوط کرنے میں کامیاب ہو گئے توپھر دیکھنا تمہارا بیوپار کس طرح ترقی کرتا ہے اور تمہاری آمدنی سے تمہاری دولت میں کیسے بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے۔“آئیڈیا زبردست تھا۔ نوجوان کئی دنوں تک اس کے متعلق سوچتا رہا‘کئی روز کے بعد جب پادری سے اس کی ملاقات ہوئی تو اس نے پادری کے کان میں سرگوشی کی‘پادری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس کی آنکھوں میں چمک نظر آنے لگی۔وہ دن اتوار کا تھا اور تاریخ تھی ۵۲/دسمبر۔پادری نے اس دن ”سروس“کے دوران ایک اعلان کیا جسے حیرت کے کانوں سے سناگیا۔اس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: ”آج شام سورج ڈوبنے کے بعد تمام لوگ اپنی دیگر مصروفیات سے فارغ ہو کر دوبارہ چرچ آئیں۔اس وقت ایسے خصوصی انداز سے دعا کی جائے گی جو پوری ہونے سے پہلے ہی قبول ہو جائے گی۔“لوگ متحیر نگاہوں سے ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے لیکن چونکہ پورے قصبے میں پادری کی قدر کی جاتی تھی اور اسے احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اس لئے کسی نے اس کی بات میں دخل اندازی کر کے خود کولوگوں کا ہدف ملامت بنانا مناسب نہ سمجھا۔چناں چہ لوگ اس اعلان کے مطابق سورج ڈوبتے ہی جمع ہو گئے۔جب اندھیرا خوب پھیل گیا اور روشنی نام کو بھی نہ رہی توپادری نے ان تمام کے آگے ایک ایک موم بتی روشن کی پھر لوگوں سے کہا گیا کہ اب آنکھیں بند کر کے وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔یہ دعا گھنٹہ بھر ہوتی رہی۔دعا کے بعد انہیں واپس لوٹنے کو کہا گیا۔ان کی واپسی کے بعدپورے قصبے میں یہ دعا اور طرز دعا لوگوں کے لئے موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔اور یہ ہی تھا عالم عیسائیت کا سب سے پہلا ”کرسمس“جو حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے ۶۳۳ برس کے بعد ۵۲/دسمبر کو منایا گیا۔
اس تہوار کا آغاز روم میں ۶۳۳ عیسوی کو ہواپھر پادریوں کی وساطت سے اس کی رسائی دربار تک ہوئی یا خود بادشاہوں نے ہی پادریوں کو اس کی سرپرستی کا حکم دیااس کے متعلق تاریخ میں کوئی بات وضاحت ساتھ نہیں ملتی تاہم گمان اغلب یہ ہے کہ پادریوں کی خواہش پر ہی اسے سرکاری سرپرستی دی گئی ہوگی کیوں کہ ان دنوں تخت کا گرجا گھر کے ساتھ بڑا تال میل ہوا کرتا تھااور تخت کو اپنے غیرشرعی‘غیر قانونی‘غیر اخلاقی اور غیر انسانی ضابطوں کی توثیق اور ان کی تنفیذ کے لئے گرجا گھر کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ پادریوں سے بے حد مضحکہ خیزاحکامات کا اعلان کرواتے جن کے عوض پادری بھی ان سے سامان تعیش کی شکل میں ”ثمن قلیل“وصول کرتے۔بہ ہر حال اس دن پورے ملک میں سرکا ری تعطیل کر دی گئی۔شاہی خزانے کی رقم سے ہزاروں کی تعداد میں موم بتیاں خریدی جاتیں اور تمام گرجا گھروں میں انہیں جلایا جاتا۔
اس وقت تک یہ بات طے شدہ نہ تھی کہ ایا حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۵۲/دسمبر کو ہی ہوئی تھی یا کسی اور تاریخ کو؟وہ دن ہے اور آج کا دن”رومن کیتھولک“اور”پروٹسٹنٹ کلیسائی“۵۲/دسمبر‘مشرقی”آرتھوڈوکس کلیسائی“۶/جنوری‘اور”ارمینیائی کلیسائی“۹۱/جنوری کوحضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت مانتے اورکرسمس مناتے چلے آرہے ہیں۔حال آں کہ اس سلسلے میں کسی کے پاس کوئی مضبوط اور ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔اس حوالے سے دنیائے عیسائیت میں متعدد رائیں اورمتضاد روایتیں ملتی ہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ  کی جانب سے یہ رائے دی گئی تھی کہ اسے ۰۲/مئی کو منایا جاناچاہئے لیکن یہ تجویز اس لئے قبول نہ کی گئی کہ ۵۲/دسمبر کو ایک غیر مسیحی تہوار ”جشن زُحل(Saturnalia)“(جو رومیوں کا تہوار تھا اور ”راس الجدی“کے موقع پر ہوتا تھا‘اس میں بھی عیاشی وفحاشی کا بازار گرم رہتا)کو لوگ منانا ترک کردیں اور اس کی جگہ کرسمس رواج پا جائے۔(قاموس الکتاب‘ص۷۴۱)
جب کہ ”کینن فیرر“نے اپنی کتاب ”لائف آف کرائسٹ“میں میں اس بات کا اعتراف بے حد واضح انداز میں کیا ہے کہ مسیح کی تاریخ ولادت کا کوئی صحیح پتہ نہیں چلتا ہاں البتہ انجیل سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات ”بیت اللحم“میں گڈریے اپنے بھیڑوں کو لئے کھیتوں میں موجود تھے لیکن ”انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا“میں کرسمس پر آرٹیکل لکھنے والے نے اس پر زبردست انداز میں نہایت عمدہ تنقید کی ہے کہ دسمبر کا مہینہ تو یہودیہ میں سخت تیز بارش کا مہینہ ہوتا ہے‘ان دنوں کھلے آسمان کے نیچے کوئی گڈریابھیڑوں کے ساتھ کس طرح رہ سکتا ہے؟تقریباََ پانچ صدی بلکہ اس سے زائد عرصے تک حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت ۵۲/دسمبر نہیں سمجھی جاتی تھی۔۰۳۵ء میں ”سیتھیا“کے ایک راہب جو منجم(ستاروں کا عالم)بھی تھا اور اس کا نام ”ڈایوینس اکسیکز“تھا‘اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے تاریخ پیدائش کی تحقیق و تعیین کی ذمہ داری سونپی گئی‘چوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے صدیوں قبل ۵۲/دسمبر مقدس تاریخ تھی اور بہت سے دیوتاؤں مثلاََ ”سورج دیوتا“وغیرہ کی ولادت ان ہی تاریخوں میں مانی جاتی تھی اس لئے اس راہب نے ان اقوام کے درمیان جو ”سورج کی پجاری“تھیں‘عیسائیت کو مقبول بنانے اور ان کے ”تالیفِ قلب“کی خاطر ۵۲/دسمبر کو ہی حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت متعین کیا۔قرآن کریم کے اندر سورہئ مریم کے مطالعہ سے پتہچلتا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کو ”دردزِہ“کا احساس ہوا  تو اللہ تعالی نے ان کی رہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ:”کھجوروں کے تنے کو ہلائیں تاکہ ان سے تازہ پکی ہوئی کھجویں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر قوت حاصل کریں۔“اور فلسطین میں کھجوریں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی-اگست مین ہی پکتی ہیں۔اس سے بھی یہ بات کھل کر سامنے آ جا تی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم گرما کے وسط میں یعنی جولائی-اگست کے ہی کسی تاریخ میں ہوئی ہے اور آپ کی تاریخ پیدائش۵۲/دسمبر  جو کہ معروف ہے بالکل غیرمستنداور سرے سے ہی غلط ہے۔(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘ص۵۳۴)
حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت میں اس طرح کے اختلافات کا ایک انبوہ نظر آتا ہے اور خود مسیحی پیشوا بھی اس بارے میں متعدد رائیں رکھتے ہیں۔جب اس کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تو بھلا ایک موہوم اور متنازع تاریخ کو اس طرح کا جشن ”بپا“کرنا کیسے درست ہو سکتاہے جو خود مسیحی تعلیمات سے متصادم ہواور دین مسیحیت میں میں جس کی ایک”بدعت“سے زیادہ کوئی حیثیت نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس”رسمِ بد“ کی مخالفت ان کے بعض مذہبی پیشواؤں نے بھی کی مگر نقار خانے طوطی کی آواز کون سنتاہے؟
روم کے بعد جہاں اس ”بدعت“نے رواج پایاوہ جرمنی تھا۔اس وقت جرمنی باضابطہ مملکت یا سلطنت (جیسا کہ آج ہے)نہ تھی بلکہ یہ رومیوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا جہاں روم کے نمک خوار چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکم رانی تھی۔جرمنی کی تہذیب و ثقافت اور وہاں کی معاشرتی زندگی میں بھی رومیوں کے اطوار کا عکس ملتا اور ان کے طرز حیات کی جھلک دکھائی پڑتی تھی۔ان دنوں جرمن سردار کرسمس منانے روم جایا کرتے جہاں اس کا انعقاد زر کثیر خرچ کر کے بڑے پیمانے پر نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا جاتا۔جب وہ روم سے کرسمس منا کر لوٹتے  اور اپنے درباریوں کو وہاں کی روداد سناتے تو درباری انہیں بڑی حیرت واشتیاق کے ساتھ سنتے۔ایک بار ایک جرمن سردار اپنی بیماری کی وجہ سے روم نہ جا سکا تو اس نے اپنے علاقے میں ہی کرسمس کا اہتمام کیا۔اس دن کے بعد تمام جرمن قبائل اپنے قبیلے میں ہی کرسمس منانے لگے۔یوں روم کے بعد پہلے پہل کے اس خطے میں کرسمس منایا جانے لگا جو آج جرمنی کے نا م سے معروف ہے۔
”کرسمس ٹری“بھی جرمنوں کا ہی دیا تصور اور ان ہی کی ذہنی اختراع ہے۔یہ لوگ کرسمس کے موقع پر(نعوذباللہ) ان تمام واقعات کو ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے جو حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آئے تھے۔ ڈرامے میں قبیلے کی ہی کوئی لڑکی حضرت مریم علیہاالسلام کا روپ دھارتی  پھر خدا کے فرستادہ فرشتے کی شکل میں کوئی نوجوان آتا اورانہیں بچے کے پیدا ہونے کی خوش خبری سناتا۔پھر حضرت مریم علیہا السلام کا اضطراب‘گھبراہٹ اور ان کی بے چینی کی کیفیت کو دکھلایا جاتا۔اس دوران ایک درخت کو حضرت مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا‘وہ اپنی تنہائی اور بے کلی درخت کے سائے میں بیٹھ کر گزار دیتیں۔اس زمانے میں اس ڈرامے کے لئے عموماََزیتوں کی بڑی بڑی شاخیں استعمال کی جاتیں اور انہیں وہاں گاڑ دیا جاتا جہاں ان واقعات کو ڈرامے کی شکل میں دکھایا جانا ہوتا۔جب یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچتا اور لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگتے تو بطور تبرک اس کی ٹہنیاں اکھیڑ کرساتھ لے آتے اور اسے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں ان کی نگاہ  ہمیشہ ان شاخوں پر پڑتی رہے۔اس کی تزئین اور سجاوٹ کے لئے اس پر مختلف قسم اور متعدد رنگ کے دھاگوں کا استعمال کرتے۔رفتہ رفتہ یہی شاخیں  ”کرسمس ٹری“ کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں اس تدریجی عمل کے دوران کسی ”مہربان“نے اس پر بچوں کے لئے تحائف بھی لٹکا دئیے پھر یہ تحفے بھی ”کرسمس ٹری“کاحصہ بن گئے۔حال آں کہ ان واقعات کو سوانگ کی شکل میں پیش کرنے اور درخت کو کاٹ کے مصنوعی طور پر لگانے کی کوئی گنجائش مذہب عیسائیت میں بھی نہیں ہے اورخود انجیل کے اندر اس کی ممانعت موجود ہے۔
یوں تو کرسمس کا آغاز محض ایک مذہبی تہوار کی حیثیت سے ہوا تھا اور اس کی واحد عیاشی موم بتیاں تھیں اور بس۔لیکن دھیرے دھیرے اس میں ”کرسمس ٹری“شامل ہواپھر موسیقی نے اپنی راہ بنائی اور ہوتے ہوتے شراب اس کا جزو لازم بن گیا۔بس شراب کے داخل ہونے کی دیر تھی پھر یہ تہوار جو کبھی خالص مذہبی تہوار ہوا کرتا تھا‘ایک عیاشی کی شکل اختیار کر گیا‘ اس سے مذہب کی خوبو گم ہوتی چلی گئی اور یہ ”عیاشی“اس کے مذہبی عناصرپر اس طرح غالب ہوئی کہ اس کی مذہبی حیثیت سے بھی فزوں تر معلوم ہونے لگی گویا:
اس قدر دیواریں اٹھیں ایک گھر کے درمیاں
گھر ہو گیا گم خود ہی دیوارودر کے درمیاں
چناں چہ صرف کرسمس کے موقع پر جس قدر عیاشی‘فحاشی‘بے حیائی‘بداخلاقی‘ قوانین کی خلاف ورزی‘قتل وقتال‘شراب نوشی‘عورتوں کے ساتھ زدوکوب‘ان کی آبرو ریزی و عصمت دری اور اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے بعض اوقات ان کی تعدادپورے سال کے جرائم کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
جو شاخ نازک پہ بنے گا آشیانہ وہ نا پائے دار ہوگا
یہ حقیقت ہے کہ خود عیسائیوں کے درمیان ایسے افراد پیدا ہو چکے ہیں جوحضرت مسیح علیہ السلام کی یوم پیدائش منانے‘”کرسمس ٹری“کے سجانے اور اس موقع پر مسرفانہ طرزعمل اختیار کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کے موقف کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے خودکبھی کرسمس منانا ثابت نہیں ہے اور یہ ”بدعت“ان کے ساڑھے تین سو سال کے بعد وجود میں آئی ہے لہذا اس سے اس کی مذہبی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ اس اعتراض اور اس جیسے دیگر اعتراضات کے باوُجودپوری عیسائی دنیا اس موقع پر خلاف فطرت‘خلاف مذہب اور خلاف قانون کاموں میں آج بھی مصروف نظر آتی ہے اور آئندہ بھی آتی رہے گی۔اس  کی واحد وجہ وہ ”ملٹی نیشنل“کمپنیاں ہیں جنہوں نے اس تہوار کو ”اسپانسر“کررکھا ہے اسے ”پروموٹ“کر کے کروڑوں افرادسے اربوں ڈالر وصول کرتی ہیں۔جنہیں اپنی منفعت سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہیں جو اپنے ایک ڈالر کے فائدے کے لئے ہزاروں افراد کو بھٹی میں جھونکنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔بد قسمتی سے کرسمس ان ہی سفاک ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔
اے چشم اعتبار ذرا دیکھ تو سہی!
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:دسمبر2013ء

بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا!!

 کامیابی کی چاہت،سرفرازی کی خواہش،تحصیل رفعت کی تمنا،کچھ کرجانے کاجذبہ،آسمان شہرت پر آفتا ب نیم روز کی طرح دمکنے کی آرزو، ہر گام انفاس کی خوشبو سے فضاء کو معطر کرنے کا شوق،گزرنے والی راہ پر اپنی یادوں کے اَن مٹِ نقوش چھوڑجانے کا ولولہ،یوں تو راہ تعلم پر محوسفر ہر راہی کے قلب ونگاہ کی وسعتیں ان سے معمورو لبریزرہتی ہیں ۔
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں او ج ثریا پہ مقیم
لیکن محض آرزؤوں کا سیل رواں اور تمناؤں کا بحر بیکراں نہ اسے کامرانی کی منزل سے ہم رکاب کرسکتاہے نہ ہی اس میں کوئی معاونت!
بلکہ اس کے لئے جی توڑ محنت،جاں گسل کوشش،بے جا اور لغو مصروفیات سے پہلو تہی، تضیع اوقات بلکہ اضاعت لمحات سے احتراز،شےء مقصود کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر لگا بلکہ کھپا دینے کا حوصلہ،انہماک مطالعہ،مواظبت کتب بینی،معصیات سے اجتناب،خواہشات نفسانی وشیطانی کی تکمیل سے احتراز،بیدارئی شب،دعائے نیم شبی،آہ سحر گاہی کے علاوہ در س اور اوقات درس کی پابندی بھی جزء ولاینفک کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کائنات آب وگل اور جہان رنگ و بو نے جن شخصیات کا لوہا تسلیم کیا ہے اور جن قدسی نفوس کی عظمتوں کے بارگاہ میں جھک کرسلام عقیدت اور نذرانہ ئ محبت پیش کرنے کو اپنے لیے باعث صد تفاخر اور وسیلہ ئسعادت وفیروزہ بختی تصور کیا ہے۔ان کی بلندی ورفعت، فرازی وعظمت،ان کے تئیں خلقت کی عقیدت ومحبت اوران کی تعمیر وتشکیل میں یہی عناصر کار فرمانظر آئیں گے۔
علم تفسیر کی رسیا جماعت ہو خواہ شائقین حدیث نبوی کا باعظمت گروہ، باریک بیں ودوررس فقہا کا قافلہ ہوخواہ گلستان ادب کے خوشہ چینوں کا کارواں، دریائے تحقیق کے غواص ہوں خواہ منطق وفلسفہ کی پر پیچ گھاٹیوں کے مسافر؛سب نے متاع وقت کی گراں مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ہر لمحہ اس سے انتفاع کو مقدم رکھا اور ہزارہا اعذاروموانع کے باوجود اساتذہ کے درس سے عدم شمولیت کو نہ صرف باعث محرومی تصور کیا بلکہ اپنی حرماں نصیبی اور شومیئ قسمت سے تعبیر کیا۔ رہ روانِ شوق کا یہ کارواں درس میں وقت معہودو مقرر پر حاضری اور اس پر مدوامت وپابندی کے لیے ہمہ دم ایک حاجب سے زیادہ چوکنا،سپاہی سے زیا دہ چست، بادشاہ مملکت سے زیادہ متفکر،اور کسی طفل نوخیز سے زیادہ حریص تھا۔جن کے لیے اس سے زائد رنج والم اور غم ناک واندوہناک کوئی بات نہ تھی کہ وہ درس میں شرکت نہ کرسکیں اور استاذ مکرم کی چشم کشاحقائق پر مبنی گفتگو،اپنے جلو میں گنجینہ ئ معلومات ونکات رکھنے والے خطاب،علمی گتھیوں کو سلجھاتی ہوئی تقاریر اور گنجلک مسائل کی سہل تر توضیحات وتوجیہات سے،محض اپنی غفلت اور بے جاتساہل کے سبب محروم رہ جائیں۔
ان کے نزدیک اس بوقلموں ومتغیر کائنات کی ولادت وفات،شادی وختنہ،عسرت وفراخی اور صحت وبیماری جیسی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں شریک درس نہ ہونے کے لئے،معقول عذر نہیں بن سکتی تھیں بلکہ اس سلسلے میں ان کا مسلک وموقف یہی تھاکہ  
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کا م اپنے ہی کام سے
ان کے یہاں من مانی چھٹیوں،من چاہی غیر حاضریوں اور لاحاصل تفریحات کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔وہ ہمہ وقت لیلائے علم پر قربان اور شمع آگہی پر نچھاور ہونے کی خاطر نہ صرف مستعدو تیار رہتے بلکہ اسے ابدی سعادت اور سرمدی خوش بختی جانتے۔ان کے لیے دن وہی تھا جس میں انہیں نگار علم کی ہم آغوشی سے لطف اندوزی کا موقع میسر آئے۔اور شب کے متعلق بھی ان کا زاویہ ئ نگاہ اس سے کچھ مختلف نہ تھا بلکہ ان کے دیدہئ بینامیں
شب تو وہی تھی جو تیر سے ساتھ کاٹ دی
حصول آگہی کا حرص،مقصد کی بلندی سے آشنائی اور اس کے صحیح شعور کا ہی نتیجہ تھاکہ اعذاروموانع کے باعث بھی اگر وہ درس میں شرکت سے رہ جاتے تو ا ن کی قلبی پژمردگی اور ذہنی افسردگی کو،چہر ے پر موجودشکن اور پیشانی پر ابھرنے والی سلوٹیں بیان کرتی ہوئی نظر آتیں۔ ان کی اس رنجیدگی کے اثر کو دورسے اور دیر تک محسوس کیا جاتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آج باوجود اس کے کہ  ؎
اس زمانے کو کتنے زمانے ہوئے
ان کے نام آتے ہی ہماری زبانیں شدت عقیدت سے مملوء اور فر ط محبت سے مغلوب ہوکر حرکت کرتے ہوئے بے اختیارکہ اٹھتی ہیں ”رحمۃ اللہ علیہ“ ۔
زمانہ ہوگیا گزراتھاکوئی بزم انجم سے
غبارراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
ذرا اپنی درخشاں وتابندہ تاریخ اور نورپیکر،جفاکش وشاہیں جگر اسلاف کے حیات بابرکات کی جانب نگاہ اٹھا ئیے!
یہ یعقوب ہیں لیکن دنیائے فقہ میں ”ابویوسف“کے نام سے معروف۔ فقہ،خصوصا َ فقہ حنفی کا کون شیدائی ہے کہ یہ نام اس کی سماعتوں سے ٹکرائے اور اس کے کائنات قلب وجگر میں عقیدت و محبت کی برقی لہر نہ دوڑ جائے۔ اپنے استاذ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی خدمت میں مدت طویل گذارنے کی سعات سے بہروہ ور ہوئے مگر اس عرصہ درازبلکہ درازتر میں کوئی دن ایسانہ تھا کہ نماز فجر میں امام اعظم کے ساتھ شرکت نہ کی ہو، اثناء تعلیم ہی ان کے سرورقلب ونورچشم،فرزندہنرمند نے عالم فانی سے کوچ کیا تو اس کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہونے کے بجائے یہ ذمہ داری اپنے اقرباء کو محض اس خوف سے سپرد کردی،کہیں یہ مشغولیت مجھے استاذ باوقا ر کے بیش بہا ملفوظات وفرمودات کے کسی ادنی حصے سے بھی محروم نہ کردے کہ آئندہ پھر اس کی تلافی ومکافات کی صورت بھی نہ ہوسکے  ۔
دام ہر موج مین حلقہئ صدکام نمنگ
دیکھو! کیا گذرے ہے قطرے پہ گہرے ہونے تک
اوریہ ہیں ”ابن جوزی ؒ“دنیا ئے تصنیف وتالیف کے بے تاج بادشاہ۔ خود فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنی انگلیوں سے دوہزار جلدیں تحریر کی ہیں“۔جب ان کا وقت موعود آپہنچا تو احباء کو وصیت کی غسل کا پانی اس کترن اور برادے سے گرم کیا جائے جو حدیث پاک لکھنے کے دوران اکھٹا ہوگئیں،چنانچہ تعمیل حکم میں ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ وہ کتر ن اور برادے اس کے لیے کافی ہوگئے بلکہ اس سے معتدبہ حصہ بچ بھی گیا۔اپنے ایام طالب علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے خود تحریرکرتے ہیں کہ ”میں اساتذہ وشیوخ کے حلقات درس میں حاضری کے لیے اس قدر عجلت سے کام لیتا تھا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھولنے لگتی۔“
سارا کلیجہ کٹ کٹ کے جب اشکو ں میں بہ جائے ہے
تب کوئی فریاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
اب ابراہیم حربی کے بارے میں ان کے استاذ مہربان اما م النحو واللغۃ احمد بن یسار معروف بہ ”ثعلب“ کو سنیے!
فرماتے ہیں کہ پچاس برس سے برابر میں انہیں اپنی مجلس میں حاضر پاتا ہوں،کبھی انہوں نے ناغہ نہیں کیا    ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور یہ منظر بھی قابل دیدہے کہ مدینہ منورہ میں امام دارالہجرہ مالک بن انس ؒ کا درس جاری ہے۔ درمیان درس باہر شورسا ہوا معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہاتھی آیا ہوا ہے،چونکہ یہ نادرالوجود مخلوق ساکنا ن نجدوحجاز کے لیے شیئ عجیب کی حیثیت رکھتاہے۔لہذا طلبہ درس کی پرواہ کئے بنا دوڑے چلے گئے لیکن ایک لڑکا اب بھی اپنی نشست پرَ سکو ن وطمانیت کی تصویر بنے درس کی سماعت میں منہمک تھا۔اس نے کوئی ہلکی سی جنبش بھی نہ کی گویا اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ آخر کار استاذ محترم کو دریافت کرنا ہی پڑا۔انہوں نے اس طالب علم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”یحی!تم اندلس کے باسی ہو اور ہاتھی تمہار ے یہاں بھی نہیں ہوتے پھر تم اسے دیکھنے کیوں نہیں گئے؟“۔یحیٰ کا جواب واقعی ایک شائق اور مقصد حصول سے آشنا طالب علم کا جواب تھا اس نے کہا ”استاذ محترم!میں اتنی طویل مسافت طے کرکے علم سیکھنے آیاہوں نہ کے ہاتھی دیکھنے“۔یہ جواب سن کر جو ہر شناس استاذ کا چہرہ فرط مسرت سے کھل اٹھااور ان کی بارگاہ سے اسے دونوں جہاں کی دعائے شادکامی کے علاوہ ”عاقل اندلس“کا لقب عطا کیا گیا  ۔
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشنی شررتیشہ سے ہے خانہ فرہاد
یہ بطور”مشتے ازخروارے“ کاروان علم کے چند سراخیل کا متاع وقت کی حفاظت وصیانت کے تئیں بیداری اور علم وفن کے تابندہ یواقیت وجواہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے لیے کی جانے والی مساعی کے عکس جمیل کی ادنی جھلک تھی ورنہ   سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
کاوش پیہم،جہدمسلسل،محافظت وقت،مواظبت درس؛یہ وہ چند عناصر ہیں جن سے ان شخصیتوں کے بافیض وجود نے تشکیل پائی اور ان قدسی صفات کے ذریعہ اپنے بعد اس عالم گیتی میں و جود پذیر شائقین علم وفن کے لیے اپنے نقوش قدم بصورت مشعل راہ چھوڑگئے۔
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلہم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع
پھر کیا وجہ ہے کہ:
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
 لیکن اس شرط شاد کا می کو پس انداز کرتے ہوئے کہ:
پہلے پید ا تو کرے کوئی ایسا قلب سلیم
٭٭٭
_______________________
تاریخ تحریر:مارچ 2013ء