جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

مولانامحمدرحمت اللہ:آغوش مادر سے سائبان مادر علمی تک

اس عالم ناپا ئیدار میں ہر لمحہ اور ہرگھڑی  انسانوں کے حیات وممات اور پیدائش ووفات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے خواہ وہ ولی ہو یا نبی،شقی ہو یا سعید،یہ قانون سب پر یکساں طور پر نافذ ہے،کوئی اس سے خوش ہو یا ناراض،خوف زدہ ہو یا نڈر،علم کا بحر ذخار ہو یاجہالت کا مجسمہ سب کو بہر حال اس سے سابقہ ہے البتہ روئے زمین پر بعض بندگان خدا ایسے بھی ہوتے ہیں جنکے چلے جانے کے بعد بھی فضا انکے خوشبو سے معطر رہتی۔ہے اس دنیائے فانی میں ایسی قابل ذکر شخصیات بھی ہوتی ہیں ہیں جو برسوں گزر جانے کے بعد بھی اپنے کارناموں اور عظیم قربانیوں کے باعث لوگوں کے درمیان سدا زندہ اور تابندہ رہتی ہیں۔ایسی ہی قابل قدر او  ر مؤ قر ہستیوں میں سے ایک مایہ ئناز ہستی مولانا رحمت اللہ صاحب ؒکی بھی ہے جنہوں نے:
   پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے کو
یہی وجہ ہے کہ آج بھی حضرت والا کی ذات ساکنان چتراکے لئے باعث فخر و سعادت ہے۔ ان ہی کی ذات بابرکات کی قربانیوں کانتیجہ ہے کہ آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی چترااور اسکے اطراف میں ایمان ویقین کی جو چمک نظر آرہی ہے وہ آپ ہی کے شمع ایمانی کا پرتو ہے:
زمانہ ہو گیاگزراتھاکوئی بزم انجم سے
غبارِراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
آپ بچپن سے ہی نیک طبیعت‘پاک طینت اور پاکیزہ اطوار و عادات سے متصف تھے۔”پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دِکھ جاتے ہیں“یا”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“جیسی کہاوتیں آپ کی ذات بابرکات پر پوری طرح فٹ آتی تھیں۔ابھی طفولیت ہی تھا کہ علمی حلقوں اور دینی مجلسوں کی سحرانگیزی اور قوت کشش نے آپ کواپنی جانب متوجہ کرلیاتھا۔بزرگوں کے مجالس اور وعظ کے محافل میں آپ نہ صرف پوری پابندی اور مستعدی کے ساتھ شرکت فرماتے بلکہ ان کی خدمت وصحبت سے دو جہاں کی کام رانی وبامرادی کی دعائیں اپنے دامن میں سمیٹ کر واپس ہوتے۔
آپ کی ولادت باسعادت  1313ھ=1895ء؁کو رانچی میں ہوئی۔آپ کے والد مکرم کانام رمضان علی اور جد محترم کانام داؤد علی تھا۔آپؒ نے ابتدائی تعلیم کاآغاز  حافظ جان احمد خاں سہسرامی ؒ کے پاس کیا، ابھی آپ ؒ پند رہ پارے ہی حفظ کر پائے تھے کہ مولانا قادر بخش سہسرامی ؒ بغرض واعظ رانچی تشریف لائے اس موقع پر لوگ جب مصافحہ کرنے لگے تو آپ ؒ نے ازدحام سے بچنے کی خاطر اخیر میں مصافحہ کرنا مناسب سمجھاجب تمام لوگ مصافحہ سے فارغ ہوگئے اور آپؒ مصافحہ کے لئے آگے بڑھے تو آپؒ کو دیکھتے ہی انہوں نے بے ساختہ فرمایا ”تم نے بہت دیر کر دی،اب آئے ہو تو میرے ساتھ ہی رہنا“   حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے متعارف بھی نہ تھے لیکن:
       ع  ولی راولی می شناسد
چناں چہ آپؒ انکے ساتھ ہولئے۔جب رات کو آپ ؒنیند کے آغوش میں چلے گئے تو انہوں نے آپؒ کی آنکھ، زبان وغیرہ کو دیکھا اور صبح کو آپؒ سے پوچھا”کیاکرتے ہو“آپؒ نے جواب دیاقرآن پاک حفظ کر رہاہوں۔تو انہوں نے فرمایا”بیٹے حفظ تو کرلوگے لیکن بیکار ہوجاؤگے“یہ سن کر آپؒ نے پوچھا”کیا حفظ کر ناچھوڑدوں؟“یہ سوال آپؒ نے تین دفعہ کیاتو وہ خاموش رہے لیکن جب چوتھی دفعہ آپؒ نے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا”تم مجھے مسلمان سمجھتے ہو یانہیں؟ کیاکوئی مسلمان کسی کو قرآن پاک کی تعلیم سے منع کرسکتا ہے؟“۔
اس کے چندہفتے بعد ہی رانچی میں مولانا شریف الحق دہلویؒ کی تشریف آوری ہوئی۔آپؒ نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی بعینہ وہی فرمایاجو مولانا قادر بخش سہسرامیؒ نے فرمایاتھا۔چنانچہ آپؒ نے دونوں بزرگوں کے کہے جانے پر فارسی شروع کرنے کاارادہ فرمالیاپھر چند مہینہ بعد ہی رمضان کریم میں دونوں بزرگوں نے بذریعہئ خط طلب فرمایا‘ دونوں خطوط آپؒ کے والد مکرم کوہی مل گئے۔انہوں نے گھرمیں تذکرہ کیاتو صلاح ومشورہ کے بعد یہ طے ہواکہ اتنی دور جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ آسنسول میں ایک مدرسہ قائم ہوا ہے وہاں بھیجا جاسکتاہے۔
عید کادن تھاآپ ؒ والد مکرم کی دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے جسکے سبب عید کی نماز ادانہ کرسکے اس واقعہ سے آپؒ اس قدر ملول خاطر ہوئے کہ عید ہی کے دن رخت سفر باندھااورآسنسول کے لئے روانہ ہوگئے جہاں سے آپ باضابطہ راہ تعلم پر محو سفر ہوئے اور اساتذہ ئ کرام کے سایہئ شفقت و سائبان محبت کے تلے حصول علم کے منازل طے کر کے حصول علم کی تکمیل کی اور سند فراغ حاصل کیا۔
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جون 2010ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں