ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

جشن سال نو:مجھ کوتو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

وقت اپنی مقررہ رفتار کے مطابق نہایت سبک سیری کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے‘ شب وروز کا سفر مسلسل بغیر کسی توقف اور ٹھہراؤکے اپنے متعینہ نظام کے ساتھ جاری ہے۔ہر جاتا ہو ادن دعوت احتساب دے جاتا ہے اور اعمال کا جائزہ لینے کی نصیحت کر جاتا ہے۔یقیناََ وقت کی معمولی تبدیلیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں نہ ہی دن رات کا یہ گردشی نظام کسی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ہاں وہ لمحہ ذخیرہئ حیات کی حیثیت رکھتا ہے جس میں فکر ونظر کی دنیا آباد ہوجائے‘روح کے گھور اندھیرے چھٹ جائیں اور وہ نورخداوندی حاصل ہو جائے جسے مؤمن کی بصیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘دل کی دنیا کا جمود ٹوٹے اور اس میں حرکت ونشاط پیدا ہو جائے‘ منزل کی راہیں روشن اور شعور کے دریچے وا ہو جائیں ورنہ یہ وقت بذات خودکچھ بھی نہیں ہے‘نہ موقع ِتاسف نہ ہی محل شادمانی!
پھر ایک نئے سال کا آغاز ہوا جس کی آمد پر جشن منائے جا رہے ہیں‘چہار جانب سے موسیقی کی بے ہنگم آواز اس طرح سنائی دے رہی ہے کہ گویا کانوں میں کسی دوسری آواز کو داخل ہونے کا موقع ہی نہ مل رہاہو‘ایک دوسرے پر پھول برسائے جا رہے ہیں‘تفریحات کاموسم اپنے عروج پر ہے‘جام پر جام لنڈھائے جارہے ہیں اور راگ رنگ کی محفلیں سجائی جارہی ہیں‘ان کے شور وغوغا میں سیدھے رستے کی جانب ر ہ بری کرنے والوں کے دل سے نکلنے والی پکاربھی صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔بھلا اب اس قدر واہیات اور ان سارے فضولیات کے بعد وقت ہی کہاں بچتا ہے کہ گھڑی بھر ٹھہر کر ان خر مستیوں کی”شانِ ورود“پربھی غور کیا جا سکے۔
تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ”نیو ایئر“منانے کی تقریبات کا آغاز انیسویں صدی کے اوائل میں ہوا۔برطانیہ کے بحری فوج ”رائل نیوی“کی زندگی کا اکثر حصہ پانی پر ہی بسر ہوتااور وہ لمبی مدت تک بحری اسفار سے تھک کر خود کو بہلانے اورموج مستی کرنے کے نت نئے بہانوں کی تلاش میں رہتے۔چناں چہ وہ کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر خوب اہتمام کرتے‘”ویک اینڈ“مناتے‘ایک دوسرے کی اور بیوی بال بچوں کی سال گرہ مناتے‘جب یہ مواقع بھی ختم ہو جاتے تو ایک دوسرے کے جانوروں یعنی کتے بلیوں کی سال گرہ بڑے دھوم دھام سے منعقد کی جاتیں جس میں شراب و کباب کا دور چلتا اور عیاشی و فحاشی کا مکمل انتظام ہوتا۔ان ہی تقریبات کے دوران یہ رائے دی گئی کہ ”کیوں نہ ہم نئے سال کو خوش آمدید کہیں؟“۔اندھے کو کیا چاہیے؟دو آنکھیں۔پھر کیا تھا اس سال ۱۳/دسمبر کو جہاز کے ”بال روم“کو سجا دیا گیا‘شراب اور موسیقی کانظم کیا گیا۔خوب شراب پی گئی‘رقص کیا گیا اور جیسے ہی گھڑی کی سوئیوں نے بارہ بجنے کا اشارہ دیا”ہیپی نیو ایئر“کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے نئے سال کا استقبال کیا گیا۔دوسرے سال انہیں محسوس ہوا کہ شراب بغیر شباب یعنی عورت کے ادھوری اور ناقص ہے۔لہذا:جونیئر افسروں نے اپنے سینیئرافسران کودرخواست دی کہ ہم   ”نیو ایئر“کو”سیلیبریٹ“ کرنا چاہتے ہیں‘اس موقعے کے لئے ہمیں دوشیزائیں درکار ہیں تاکہ ان کے ساتھ رقص کر کے اس رات کی رنگینیوں میں اضافہ کیا جا سکے۔سینیئر افسروں نے ان کی”ضروریات“کا احساس کرتے ہوئے قریب ترین ساحل سے پیشہ ور رقاصاؤں کا بند وبست کر دیا۔پھر جوں ہی رات کے بارہ بجے جہاز کی تمام بتیاں گل کر دی گئیں‘بتیوں کے بند ہوتے ہی نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور اس طرح نئے سال کو خوش آمدید کہا گیا۔اس کے بعد یہ بے ہودہ سلسلہ چل پڑااور شدہ شدہ اسلامی تشخص رکھنے والے افراد بھی اس کے رنگ میں رنگتے چلے گئے اور ہماری اقدار وروایات بھی اس منحوس رسم کی زد میں آتی چلی گئیں۔
ان تمام خرافات میں ہم‘اورخصوصاََ ہماری وہ نوجوان نسل بھی شریک ہے جو ہمارے آرزؤوں کے مرکز اور خوابوں کی تعبیرہیں‘آنے والے دنوں میں ”زعمائے ملت“ان ہی میں سے چنے جائیں گے اورملک وملت کی زمام ان ہی ہاتھوں کے سپرد کی جائے گی۔جن سے یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ اپنے بڑوں کے ادھورے خاکوں میں رنگ بھریں گے اور ان کے تشنہئ تکمیل منصوبوں کو پوراکرنے میں تن‘من‘دھن کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔مگر ان کی اٹھان ہی اتنی کج اور بے راہ روی کے ساتھ ہے کہ ان سے توقعات کی وابستگی سراب ریگ زار اور خیال خام معلوم ہوتی ہے۔کیوں کہ یہ  اس قدر ذہنی غلامی میں مبتلا ء اور اس درجہ اندھی تقلید کے شکار ہیں کہ مغرب سے اٹھنے والی ہر صدا انہیں ”صدائے حق“اورادھر سے ہو کر آنے والی ہر ہوا پرستش کے قابل دکھائی دیتی ہے۔جہاں کی ”روشن تہذیب“نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے‘ جہاں کی نہایت کرخت آواز میں بھی انہیں مدُھرسنگیت کی خوبیاں نظر آتی ہیں اور جہاں کی کریہ و بدبودار ہواؤں میں بھی انہیں نسیم صبح کے لطیف جھونکوں کی لذت ملتی ہے۔مغربی اداؤں پر ان کی وارفتگی اور یورپی طرز حیات سے ان کی دل بستگی کا یہ عالم ہے کہ ان کی نگاہ کوتاہ اندیش میں اقوام مغرب کی پیروی کرتے ہوئے ان کے طوروطریق کو اپنا کران کے دوش بہ دوش اور ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا ہی ترقی اور ترقی کی اصل معراج ہے۔اب انہیں کو ن سمجھائے کہ:
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پہ نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولِ ہاشمی
انہوں نے اپنی غیرت وحمیت کو انہیں سفاک ہاتھوں میں گروی رکھ دیا ہے جوان کی تباہی میں ذرا کسر نہیں چھوڑنا چاہتے اور ہر سمت سے یلغار کر کے انہیں پسپاکرنا ہی جن کا مقصد زندگی بن گیا ہے۔انہیں اپنے اسلامی تشخص پربجائے افتخار کے عار محسوس ہوتا ہے‘اسلامی احکامات کو وہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اپنی آزادی میں مخل سمجھتے ہیں۔ اسلامی قوانین وضوابط انہیں دقیانوسی خیالات کے پلندے اور علماء حق بسم اللہ کی گنبد میں رہنے والے نہایت خشک لوگ نظر آتے ہیں جو زندگی کی لذتوں سے نہ خود لطف اندوز ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں۔
حالانکہ عقل ودانش کی نگاہ سے بھی اگرسال نو کے اس جشن کو دیکھا جائے تو اس میں کہیں سے کوئی جھول نہیں رہ جاتا کہ یہ موقع نہ قہقہے لگانے کا ہے نہ تالیاں بجانے کا‘نہ موسیقی کی دھن میں خود کو گم کردینے کا نہ پکنک اسپاٹس کی زینت بننے کا‘نہ جام ومینا سے دل بہلانے کا نہ ہی رقص و سرود کی محفلیں سجانے کا بلکہ یہ موقع ہے خود احتسابی کا‘ایام ماضی کی غفلتوں پر ندامت اور افسوس کے آنسوبہاکر حیاتِ مستقبل کی فکرکرنے کا،گذشتہ سال کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کا‘راہ عمل کو طے کرتے ہوئے راستہ روک دینے والی ٹھوکروں سے سبق لینے کا‘جن سے زندگی بذات خود ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے ان گناہوں سے کلی طور پر توبہ کرنے کا،جو خلاق عالم کے غضب و عتاب کا سبب بنتی ہیں ان افعال شنیعہ پر پشیمان ہونے کا‘ جوکسی آبگینہئ دل کو ٹھیس پہنچانے کا ذریعہ بنی ہوں ان حرکاتِ مذمومہ سے معافی کااورآئندہ زندگی کو کسی زاہد پاک باز کی ردائے شفاف کی طرح گزارنے کے عزم صمیم کا۔
اگر یہ پوچھنا ہو کہ کیا یہ واقعی نیا سال ہے تو اس افلاس زدہ بچے سے پوچھئے جو دسمبر و جنوری کی یخ بستہ ہواؤں والی راتیں ایک ایسی چادر پر گزار رہاہے جو خود رنگ برنگے اور چھوٹے بڑے پیوندوں سے بھری پڑی ہے۔نئے سال کی حقیقت اس جاں بہ لب مریض سے پوچھئے جس پر چند ماہ پہلے بیماری کا حملہ ہوا تھا پھر اسے اسپتال میں بھرتی کروایا گیالیکن اس کی حالت بتدریج بگڑتی ہی چلی گئی اور اب وہ ICU(انتہائی نگہ داشت اکائی) میں اپنی زندگی کے آخری لمحات گن رہا ہے۔نئے سال کی سچائی اس بے کس وبے نوا مزدور سے دریافت کیجئے جو کئی دنوں سے لگاتار مزدوری کی تلاش میں نکل رہا ہے لیکن سوائے ناکامی کے اسے کچھ ہاتھ نہیں لگتااور روزانہ خالی ہاتھ، اداس چہرہ لئے واپس آجاتا ہے جہاں بیوی اور بچوں کی آس بھری نگاہیں منتظر ہیں لیکن ان کے لئے دو نوالوں کا انتظام بھی اس کے بس سے با ہر کی چیز ہے۔اگر یہ سال سچ میں نیا ہے تو یہ ساری پرانی چیزیں اس کے ساتھ ساتھ کیوں چل رہی ہیں؟پھر نئے سال نے ان کی زندگی میں کوئی انقلاب کیوں برپا نہیں کیا؟وہی غربت‘تنگ دستی‘ بیماری‘بے چارگی‘ بے کسی‘اور کس مپرسی جو پرانے سال میں اس کے مقدر میں تھے اس نئے سال میں بھی وہی اس کے استقبال کے لئے کیوں کھڑے ہیں؟
دیکھ اگر دیدہئ عبرت نگاہ ہو
***
___________________
تاریخ تحریر:جنوری2014ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں