جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

علم الانسان بالقلم

قلم کی اہمیت اور اسکی قدرو قیمت کے اندازہ کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایجادِ عالم سے پچاس ہزار سال قبل قلم کی تخلیق خوداپنے دست قدرت سے فرمائی ہے۔ حضرت علیؓ کافرمان ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان چیزوں کا علم دیاجن کو وہ نہیں جانتے تھے ان کو جہل کی اندھیری سے نورِعلم کی طرف نکالااور علم کتابت کی ترغیب دی کیو نکہ اس میں بے شمار اور عظیم منافع ہیں جنکا اللہ کے سوا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا“ حضرت قتادہؒ نے فرمایا”قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر یہ نہ ہوتانہ کوئی دین قائم رہتااور نہ دنیاکے کوئی کاروبا ر درست ہوتے۔“
یقینًاقلم دنیاکا وہ شاہِ جہاں ہے کہ اس کے فوائدومنافع کا شمار ممکن نہیں،اس کے توسط سے اپنی پوشیدہ صلاحیتں دوسرے کے اندر بآسانی منتقل کی جاسکتی ہیں اسکا اثردیرپا اور دوررس ہوتاہے،اس کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات (جو مرور ایام کے باعث اذہا ن وقلوب سے محوہوچکے ہوتے ہیں)کودیکھ کربغیرکسی کلفت کے یاد کیاجاسکتاہے۔ اگرقلم نہ ہوتودین ودنیاکے سارے کام مختل ہوجائیں۔
اسی ذریعہ کواپناکر آج اعداء اسلام اس پاکیزہ اور مقدس مذہب پر جو امن وسلامتی کا سب سے بڑاعلم بردار ہے اس پرطرح طرح کے الزامات واتہامات کی یورش کررہے ہیں اور اسے ایک سفاک،دہشت گرد،ظالم ترین اوربیہودہ مذہب کے طورپرپیش کرکے پوری دنیا کے آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اغیار توکیا خود مسلمان بھی غلط فہمیوں کے شکارہوتے چلے جارہے ہیں۔
اسی قلم کی بدولت بے شمار ہستیاں اپنے علمی سرمائے کوآنے والی نسلوں کیلئے محفوظ کرکے سداکے لئے دعاؤ ں کامحور بن گئیں۔ نہ جانے اس دنیا ئے آب وگل میں کتنے علم وفن کے آفتاب وماہتاب نے جنم لیا جن کی لیاقت و قابلیت کاڈنکاچہار دانگ عالم بجا،ان کے بحر علم سے بے شمارتشنگان علوم نے اپنی پیاس بجھائی،ان کے ملفوظات وفرمودات سے متاثرہوکر لاتعداد سیہ رو اور سیہ قلب انسانوں کو پاکیزگی اور معرفت کا نور ملالیکن انکے علم وفن کاسارااثاثہ انکے ساتھ ہی زیرزمین دفن ہوگیااور بقاء ودوام حاصل ہواتو انہی پاکیزہ ہستیوں کوجنہوں نے دور اندیشی اور تفکر وتدبر سے کام لے کرقلم وقرطاس کا استعمال کیااور اپنے تجربات و معلومات کو کتابوں کی صورت میں محفوظ کرگئے۔ان کے ذخیرہئ علم سے اہل علم نے استفادہ کیاجس کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔اسی قلم نے مظلوم وشکست خوردہ قوم کے حوصلوں کوکچھ اس طرح مہمیز دیاکہ انہوں نے دشمنوں کوناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیااورانہیں شکست کے کنوئیں میں اتار کر وہ تمام حقوق حاصل کرلئے جن سے وہ عرصہئ دراز سے محروم تھے۔
       خود ہمارے ملک ہندوستان کی جنگ آزادی میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ”الہلال“مولانا محمد علی جوہرؒ کے’’کامریڈ“مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کے”صدق جدید“ کاکرشمہ تھاکہ اس نے شمع آزادی کے پروانوں میں وہ روح پھونکی اور ولولوں کو وہ بالیدگی عطاکی جو ہمارے نگاہوں سے پوشیدہ ومخفی نہیں، اسی کو ابو حاتم بستی نے اپنے دواشعار میں یوں پیش کیاہے:
اذا اقسم الابطال یوماََ بسیفہم
و عدوہ مما یکسب المجد والکرم
کفی قلم الکتاب عز او رقعۃ
مد الدہر ان اللہ اقسم بالقلم
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:نومبر2010ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں