جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

عبث ہے یونہی کام یابی کی چاہت!!

خواہشیں کہاں جنم نہیں لیتیں ...؟تمناؤں کے گلاب کہاں نہیں کھلتے...؟سپنے بننے کاحق کسے نہیں ہوتا...؟آرزؤ ں کا تاج محل کون تعمیر نہیں کرتا...؟”کامیابی“ کی چاہت کسے نہیں ہوتی...؟
وہ کوئی طالب علم ہو یاکسی کمپنی کا ملازم...زمین کے آغوش میں پوشیدہ معدنیات کے ذخائر تلاش کرنے والے افراد ہوں یا سیاروں کی وادی کے مسافر...کسی دفتر میں ملازمت کا امیدوار ہو یا کسی مقابلہ جاتی امتحان میں شریک شخص...اپنی تجارت کو فروغ دینے میں مصروف کوئی تاجر ہو یااپنی زراعت میں منہمک کوئی کاشت کار...ہر کوئی ”کامیابی“کا خواہاں ہے۔
یہ تگ و دو...یہ بھاگ دوڑ...جاں گسل کوششیں ...جی توڑ محنتیں ...پے پناہ مصروفیات...ہزارہا مشغولیات...کیا ان سب کا مقصد ”کامیا بی“کے سوا اور کچھ بھی ہے...!؟
ہر کسی کی محنت و جفا کشی کا سبب...سعی پیہم اور جہد مسلسل کی وجہ...انتھک کوششوں اور جدوجہدکا باعث”کامیابی“ کی آس ہی تو ہے...!!
اسی کی چاہت تو اسے تھکنے نہیں دیتی...اسی نے تو بوڑھوں کو جوان اور رعنا بنا رکھا ہے...اسی آس نے تو ضعیف کاندھوں کو بھی بوجھ سہارنے کی صلاحیت عطا کی ہے...!
چلتی پھرتی زندگی ہمارے سامنے ہے...کچھ لوگ بے حد کامیاب ہیں کچھ حد درجہ ناکام...کچھ کے در کی گدائی کو بھی باعث سعادت تصور کیا جاتا ہے تو کچھ کو قابل التفات اور لائق توجہ بھی نہیں سمجھا جاتا...کسی کی جوتیوں میں جگہ مل جانے کو خوش بختی سے تعبیر کیا جاتا ہے توکسی کو حرف مکرر اور بار گراں گمان کیا جاتا ہے...کسی کی نا ساز طبیعت کی اطلاع پاتے ہی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے تو کسی کو ایک تیماردار بھی میسر نہیں ہوتا...
ایسا آخر کیوں ...؟ ان کے عز و افتخار کا سبب بھی تو یہی ”کامیابی“ ہے۔
کامیاب افراد کی مدح و توصیف میں ہم کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے...ان کی ستائش میں ہم زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہتےہیں ...انکے فلاح و بہبود کے تذ کرے ہماری نوک زبان پہ رہتے ہیں ...ان کی رفعت و کمال کے ذکر سے ہماری مجلسیں معمور رہتی ہیں ...اٹھتے بیٹھتے ہم ان کی مدحت کے زمزمے گنگناتے رہتے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کی کامیابی کا سبب ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے...اور ہماری نگاہوں سے مخفی ہے...
ہم بخوبی اس سے واقف ہیں کہ اس ”کامیابی“ کے لئے انھیں بے شمار طویل راتوں کی نیند قربان کرنی پڑی ہے...نہ معلوم کتنی آرزؤں کا گلا گھونٹنا پڑا...خدا جا نے کتنی خواہشات کو جنم لیتے ہی دفن کر دیاگیا...پتہ نہیں کتنی تمناؤں کا سر ابھارتے ہی قلع قمع کر دیا گیا...
جس کے نتیجہ میں انھیں لوگوں کی عنایتوں ...اپنوں کی محبتیں ...غیروں کی نوازشیں ...صغار کی حرمت و عزت...اور کبار کی  شفقت نصیب ہوئی۔
لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہمیں یہ قطعی طور پر یہ زیب نہیں دیتاکہ ہم کائنات کے اعظم و اثمن سر مائے کو(جس کے متعلق کسی نے کہا تھا کہ”اگرآپ وقت کو ضائع کر رہے ہیں تو یاد رکھئے وقت بھی آپ کو برباد کر رہا ہے“) ضائع کر کے...بغیر کچھ کئے...بنا کسی محنت و جہد کے...ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور فوز و فلاح کے منتظر رہیں تو پھر اسے احمقوں کی جنت میں
رہنے کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جاسکتاہے...!!؟                                        
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:مئی 2011ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں