ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

مفکراسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کی سیاسی خدمات

(رابطہ صحافت اسلامی ہند اور "بصیرت"(آن لائن)کے زیر اہتمام کل ہند مسابقہ صحافت میں اول انعام یافتہ تحریر)
زمانہ ہو گیا گزرا تھاکوئی بزم انجم سے
غبارراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
صاحبان نظراور ارباب دانش وبینش  کی دور بیں نگاہوں سے یہ امرمخفی نہیں ہے کہ شخص سے شخصیت کاسفر طے کرنے میں کوئی  تھوڑاوقت اور مختصر مدت نہیں لگتی بلکہ اس کے لئے برسہابرس لگانا اور  ”کھپانا“ پڑتاہے تب کہیں جا کے کوئی ”جیالا“حالات کی بھٹی سے کندن بن کر زبان حال سے یہ کہتاہوا نکل آتاہے کہ:
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے”انسان“نکلتے ہیں
ورنہ اگر یہ اتناہی آسان عمل ہوتاتو شاعر مشرق کو ہرگز یہ نہ کہناپڑتا:
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں اوج ثریاپہ مقیم
پہلے پیدا تو کرے کوئی ایسا قلب سلیم
شخصیت کے تعمیرو تشکیل میں محنت شاقہ ایک ازلی صداقت اورابدی حقیقت ہے  گوکہ کور چشموں کو نظر نہ آئے کہ:
کیاگزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
”تمنائے مختصر“کے لئے قائم کی گئی اس”تمہید طولانی“ کاخلاصہ یہ ہے کہ شخص سے شخصیت بننے میں جو عرصہ لگتا ہے وہ متاع حیات کاایک معتد بہ حصہ ہوا کرتا ہے جسے  یوں بھی واشگاف کرنے کی کوشش کی گئی کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 یقیناََشخصیت کی تعمیر کے لئے جاں کاہی اورمغز پاشی کا”میٹیریل“وافر مقدار میں درکار ہوتا ہے کیوں کہ:
ساراکلیجہ کٹ کٹ کے جب اشکوں میں بہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
لیکن پھرشخصیات کی بھیڑ اور ”ہستیوں“کے انبوہ میں بھی کچھ چہرے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور دیکھنے والے بہت دور سے بھی ان کے رخ روشن کو دیکھ بآسانی پہچان لیتے ہیں اور اس میں ذرا خطا نہیں کرتے۔ایسی ہی امتیازی حیثیت اور خصوصی شناخت رکھنے والی شخصیات میں سے حضرت مولاناابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی بھی ہے جو بہ یک وقت بہترین مدرس بھی تھے اور زبردست منتظم بھی‘امت کا درد رکھنے والے مفکر بھی تھے اور ملی کاموں کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے مجاہدبھی‘باوقار عالم بھی تھے اور بلا کی ذہانت سے مالامال سیاست دان بھی!
مولاناکی شخصیت گوناگوں اوصاف حمیدہ کا مرقع اورمختلف النوع خوبیوں کاپیکر تھی۔اس دور قحط الرجال میں ایسی فقید المثال شخصیت قرون ماضی کی یاد دلاتی تھی۔ان کی شخصیت بلا شبہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھی‘وہ جس میدان میں جانکلتے وہاں اپنی لیاقت ومہارت کا لوہا منوا لیتے‘وہ:
چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو
جس رخ سے بھی پڑھوگے تم ”اسے“جان جاؤ گے
کے مصداق تھے۔وہ ”در کفے جام شریعت“کے مالک تھے تو”در کفے سندان عشق“بھی رکھتے تھے۔ان کے متعلق یہ کہنے میں کہیں سے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے:
پھونک کر اپنے آشیانے
روشنی بخش دی زمانے کو
وہ ”بسطۃ فی الجسم“ تو نہ تھے مگر ”بسطۃ فی العلم“ہونے میں نایاب نہ سہی لیکن کم یاب ضرور تھے۔انہوں نے جہاں اپنی تدریسی خوبیوں اور افہام وتفہیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے بہار ایسی بنجر اور شوریدہ زمین کو تعلیم و تعلم کے لئے کچھ اس طرح زر خیزی بخشی کہ بہاری طلبہ جن کے نزدیک بیرون بہار حصول تعلیم کے لئے جانا ہی کام یابی کی معراج  تصور کیاجاتاتھا-اور یہ احساس کم تری بہاری طلبہ کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہاتھا- لیکن مولانا کی پر کشش اور سحر انگیز شخصیت نے ان تشنگان علم وآگہی کو اس سلیقے سے سیراب کیا کہ ہمیشہ ”ہل من مزید“کانعرہ لگانے والوں کے قدم تھم بلکہ جم سے گئے اور انہیں ”دور کے ڈھول سہاون“کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے شائقین علم نے جوق در جوق اس با فیض شخصیت کی جانب رجوع کرنا شروع کردیاتو دیکھنے والی متحیر نگاہیں سراپا سوال بن کر یہ پوچھنے لگیں کہ:
ہجوم کیوں ہے زیادہ”شراب خانے“میں؟
پھر مولاناکی شخصیت کو دیکھ اور ان سے واقفیت حاصل کرکے انہیں اس کا جواب بھی جلد ہی مل جایاکرتاکہ:
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے ”مرد خلیق“
”زمین شور“اور ”مردم خورسرزمین“کہنے کی جرأت اس نا چیز کونہیں بلکہ اس ”خصوصیت“ کاتذکرہ بہارکے مایہ ناز سپوت‘ صاحب طرز ادیب اور عالم شہیر علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے کیا ہے؛یہ خیالات ناچیز نے ان ہی سے مستعار لئے ہیں۔اور ویسے بھی پیش نظر تحریر میں  زیادہ تر ”مانگے کے اجالوں“سے کام لیا گیاہے اس لئے اس اعتراف میں کوئی حجاب مانع نہیں ہے کہ:
”ان“ہی کی محفل سنوارتا ہوں‘چراغ میرا ہے رات”ان“ کی
جہاں مولانا نے وادیئ تدریس میں اپنی لیاقت مندی کے پرچم نصب کئے  وہیں انہوں نے اپنے جذبہئ اخلاص اور تواضع و کسر نفسی کے وہ نمونے پیش کئے اور ”مد نظر مرضی ئ جاناناں چاہئے“کا عملی ثبوت کچھ انداز سے سے پیش کیاکہ تاریخ کی نگاہیں عش عش کر اٹھیں اور ”لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!“کی صدا لگانے والوں کو مانگی مراد مل گئی۔لگے ہاتھوں ان واقعات کا ذکر بے محل نہ ہوگاجومولانا کے انکسار وتذلل پر دال ہیں۔ جہاں آپ کو ”مدرسہ انوار العلوم‘گیا“کی عمارت کے موقع پر طلبہ کے ساتھ اینٹیں ڈھونے میں بہ نفس نفیس شرکت کرتے ہوئے دیکھا گیاوہیں اس کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ جب چمپارن میں زلزلے کے زد کی تاب نہ لاکربیشترکچے مکانات زمین بوس ہو گئے اور مفلوک الحال لوگ جن کے پاس سے سر چھپانے کو جو سائبان میسر تھاوہ بھی جاتا رہا تومولانا نے زلزلہ کی زدمیں آئے ان علاقوں کا سفر کیا اوران افلاس زدہ بے یارو مددگار لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے”نیک مشوروں“سے ”نوازا“بلکہ ہاتھ میں چاقو اور رسی لئے ان گھروں کے ٹھاٹھ کے بندھن کو باندھ کر سنت نبوی کا عملی مظاہرہ کیا۔
آپ قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ گفتار نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔آپ نہ کرنے سے پہلے بلند بانگ دعوے کر کے مخاطبین کو خواہ مخواہ مرعوب کرنے کی بے جا کوشش کرتے نہ  ہی ”کر جانے“کے بعد موقع بہ موقع خود منہ میاں مٹھو بن کر ان کارناموں کا کسی نہ کسی بہانے سے تذکرہ کر کے دوسروں کو صبر وضبط کے امتحان میں مبتلا کرتے۔وہ جو کچھ کرتے اسے نہایت رزداری کے ساتھ انجام دیتے اور اگر کبھی اس کا ذکر ناگزیر بھی ہوتا توکسی لگاوٹ‘بناوٹ اورتصنع کو جگہ دیئے بغیر نہایت دیانت داری  کے ساتھ بیان فرمادیتے۔انہیں کسی کام کا”کریڈٹ“لینے کے لئے بھاگم بھاگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیابلکہ اکثر اپنے کاموں کا”کریڈٹ“دوسروں کو دے جاتے کیوں ان کے پیش نظر ہمیشہ ہی ”مرضیئ جاناں“ہواکرتا۔وہ جو بولتے وہی کرتے اور جو کرتے وہی بولتے بلکہ اکثر اپنے کارنا موں کے حوالے سے خاموش رہتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہاں ان کاموں کی قیمت چاہ کر بھی ادا نہیں کی جا سکتی اس لئے”ان اجری الاعلی اللہ“کہہ کر وہ تجارت کرلیتے جس کے بارے میں حقیقت کی غمازی کرتے ہوئے کہا گیا کہ:
سودا یہ وہ ہے جس میں خسارہ کوئی نہیں
انہوں نے ایسے وقت میں سیاست میں قدم رکھا جب کہ پوری قوم کاشیرازہ بری طرح انتشار کا  شکار تھا؛ان کے حواس مفلوج‘قلب و ذہن مجروح اورعقل ودماغ محکوم ہورہے تھے‘ مسلمانوں کو سیاسی طور پر”یتم“کی تلخیوں کااحساس ہو رہاتھا‘کارواں ”نگہ بلند‘سخن دل نواز‘جاں پرسوز“جیسے وقیع اوصاف سے متصف میر کارواں کی تلاش میں سرگرداں تھا‘ بیمارقوم کسی مسیحا کے مبارک قدموں کے چاپ سننے کو منتظر اور پرامید نگاہوں سے کسی ”نجات دہندہ“کی جانب دیکھ رہی تھی۔ایسے وقت میں ”استحباب“کے درجے میں نہیں بلکہ یہ ضرورت ”وجوب“کی حد تک پہنچ چکی تھی کہ پردہئ غیب سے کوئی ”مرد مؤمن“اپنے دل درد مند اور فکر ارجمند کو لے کر نمودار ہو اور اس لٹے پٹے ہوئے کارواں کو یک جا کر کے تازہ دم کرے؛اورنہ صرف گفتگو کے ذریعہ بلکہ عملی اقدامات کو بروئے کار لاکر ان میں ”اسپرٹ“بھرے اور ان کے تن مردہ میں روح پھونک دے تاکہ یہ قوم جو مجموعی اعتبار سے بے حس وحرکت پڑی ہوئی ہے اورجو کچھ مقسوم میں ہے اسی پر ”راضی برضا“رہنے اور اسے اپنا مقدر کہہ کر”صبر وشکر“کا مظاہرہ کررہی ہے وہ پوری طرح صحت یاب اورفکری طور پر بیدار ہوکرخود کو ”مرد آہن“ ثابت کر سکے اور اپنے وجود کی اہمیت اس انداز میں بتا سکے کہ جو ”ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا“ہیں وہ ایک نئے جوش اور تاریخ ساز ولولے کے ساتھ اٹھیں اور خود کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کے بہ جائے اپنے نوشتہئ تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے تحریر اور چند کلیوں پر قانع ہونے کے بہ جائے”علاج تنگیئ داماں“کی فکرو تدبیر بھی کرسکیں۔
غرض یہ کہ سیاسی میدان میں کسی ایسے مستانے کی شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جارہی تھی جوبگڑے ہوئے ”دستور مے خانہ“ میں تبدیلی لاکر اپنے نئے لائحہ عمل اور سیاسی فہم وتدبر کے ذریعہ  اس ”قوم“ کے گیسوئے برہم کو سنوار کر سکے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے درد کے درماں  کے لئے بارگاہ ایزدی میں آپ کو قبول کرلیا گیاجس کا ظہور مسلمانان ہند کے ذریعہ آپ کی ذات کو سیاسی رہ نمائی کے لئے منتخب کئے جانے کی صورت میں ہوا۔بلاخوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا کی شخصیت نہ صرف سیاسیات میں ایک اہم مقام کی حامل  تھی بلکہ ان کی ذات گرامی اس باب میں نہایت ممتاز حیثیت بھی رکھتی تھی۔یہ صرف ایک نوخیز طالب علم کی مبالغہ آمیزرائے نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کے نام ور‘مقتدر اور مسلم الثبوت علماء نے بھی کھل کران کے اس ”وصف خاص“کا واضح انداز میں اعتراف کیا ہے۔
یوں تو مولانا کی زندگی کاہرلمحہ‘تمام چلت پھرت اورساری تگ ودواعلاء کلمۃاللہ‘تحفظ شریعت‘مسلمانوں کے تشخص اور ان کے شناخت کی بقاء کے لئے گویاوقف تھے لیکن باضابطہ اور مرتب انداز میں اس کام کا آغاز تب ہواجب کہ مولانا الہ آباد میں مقیم  اور مدرسہ سبحانیہ میں علم ومعرفت کے گراں مایہ یواقیت ولآلی مستفیدین کے آگے لٹانے میں مصروف تھے اور ہر کوئی اپنے اپنے ظرف کے بہ قدر اسے دامن  شوق میں سمیٹ رہاتھا۔طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس وقت آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر رہی تھی اور مولانا پوری جاں فشانی کے ساتھ ان کے دامن طلب کو علم وحکمت کے تابندہ جواہر سے بھر رہے تھے۔ان ہی دنوں زاہد خاں دریابادی نامی ایک شخص مولانا سے اکتساب فیض کے لئے آیا کرتے تھے‘وہ انگریزی زبان سے واقف تھے اور انگریزی اخبارات مولانا کوپڑھ کر سنایا کرتے جس میں عالم اسلام کی دگر گوں صورت حال سے متعلق نہایت تشویش ناک خبریں ہوا کرتیں؛مولانا جب یہ سب سنتے تو تڑپ اٹھتے اور آپ کی مفکرانہ طبیعت یہ سوچ کررنجیدہ‘ملول اور بے چین ہو جایاکرتی کہ:
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پہ ہوگااس کاامتحاں کب تک؟
آپ کی بے کلی یہ کہتی ہوئی نظر آتی کہ:
یہ فکر مجھے چین سے سونے نہیں دیتی
اب کون میری قوم کو بیدار کرے گا
اسی خلش اور عالم اسلام کی اسی بے کسی وبے بسی نے آپ کو مضطرب کر دیااور میدان سیاست کو اپنی جولان گاہ کے طور پر منتخب کرنے کو مجبور کردیا۔چوں  کہ یہ لابدی حقیقت مولانا کے آگے آفتاب نیم روز کی طرح آشکارا تھی اور آپ کو بہ خوبی اس کاادراک تھاکہ:
جداہودیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی
اس لئے وہ جودت فہمی اور ذکاوت ذہنی جوکبھی علمی گتھیوں کے سلجھانے میں صرف ہوتے تھے توکبھی تفسیر وحدیث کے بحر ذخار میں غواصی کرتے ہوئے نظر آتے تھے‘کبھی فقہ وادب کے گلہائے رنگارنگ کی فرحت افزاء اورسروربخش خوشبوؤں سے مشام جاں کومعطرکرتے ہوئے ملتے تھے تو کبھی فلسفہ ومنطق کی پرپیچ گھاٹیوں میں محو سفر دکھائی پڑتے تھے؛اب ان کے سمت سفر میں تبدیلی آگئی تھی اوراس شخصیت کے سفینہئ فہم و فراست نے ”صحیح رخ“پر چلنے کا فیصلہ کرلیاتھاکیوں کہ خلاق عالم نے جس کی تخلیق پوری قوم کی قیادت وسیادت کے لئے کی ہو اسے  ایک تنگ دائرے میں  محدود بلکہ محصورکب تک رکھاجاسکتاتھا؟جس کے شخصیت کی بلندی:
فلک تووسعتیں اپنی بڑھالے
مجھے اڑنے کی خواہش ہو رہی ہے
کہنے کاحق رکھتی ہواسے ایک چھوٹی سی چہاردیواری کے اندر کہاں تک مقید کیاجاسکتاتھا؟
چناں چہ مولانا نے مسلمانوں کی زبوں حالی کے  اسی کرب سے متاثر ہوکرمدرسہ سبحانیہ کو الوداع اور الہ آبادکوخیرآباد کہتے ہوئے ”گیا“کی راہ لی۔”گیا“آنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مدرسے کی بنیادڈالی تاکہ اس فانی زیست کی یہ یادگار سدا باقی رہ سکے اور اس کا نفع تا صبح قیامت صدقہئ جاریہ کی صورت میں ملتارہے نیز مدرسے کے قیام کے پس پردہ یہ مصلحت بھی کار فرما تھی کہ اس کے توسط سے عوامی رابطہ مضبوط کیاجاسکے؛آپ کو عوام کے خیالات سے واقفیت حاصل کرنے میں سہولت ہو اور آپ کی ذات سے عوام متعارف ہوجائے تاکہ ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہوئے ملکی‘ملی وسیاسی مسائل کے منجدھار سے اپنی کشتی بآسانی باہر نکالی جاسکے۔”گیا“کو مرکزعمل بناکرآپ نے پورے لگن‘جوش وجذبے‘حوصلے اور ولولے کے ساتھ عموماََ پورے عالم اسلام اور خصوصاََہندوستان کا اپنے  ”کارگاہ“ کے طور پر انتخاب کیا۔
امت مسلمہ کی حالت زار اور ان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے تئیں فکر مندی کا نتیجہ تھا کہ آپ کی اختراعی صلاحیتوں نے مدارس اسلامیہ میں اصلاحی نصاب کے اجراء‘امارت شرعیہ‘غلہ اسکیم‘علماء بہا ر کی متحدہ تنظیم ”انجمن علماء بہار“ کے قیام اور ایسے ہی متعدد  رفاہی تنظیموں وفلاحی کاموں کو اپج دیا۔”انجمن علمائے بہار“کے قیام کے وقت مسلمانوں کو نہایت پر آشوب حالات کا سامنا تھا؛یہ وہ زمانہ تھا جب کہ شیخ الہندمولانا محمود الحسن دیوبندی‘مولاناابوالکلام آزاداور علی برادران جیسے قائدین حریت ”ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ“کے تحت اسیری کے دن کاٹ رہے تھے۔ان کی رہائی کے لئے کوئی تحریک تو کیا چلتی اور اس کے خلاف کوئی آواز تو کیا اٹھتی‘لوگ ”خداوندان فرنگ“کے خوف سے ان کے نام لینے سے بھی خائف رہتے تھے۔لیکن ”انجمن علمائے بہار“نے ان مسلم قائدین کی رہائی کے لئے صدا بلند کی تومولانا کے اس جرأت مندانہ کار نامے نے ملک کے علماء و دیگر حریت پسندوں کے  ولولوں کو دو آتشہ کردیا۔
”انجمن علمائے بہار“کے قیام کے دوسال بعد معاََ  1919  ؁ء  میں جب آپ کی تمنائیں ”جمعیۃ علماء ہند“کی شکل میں بار آور ہوئیں پھراس کے بعد”جمعیۃ“کادوسرااجلاس مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒکی تحریک اور مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کی حمایت سے دہلی کی سرزمین پرشیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندیؒ کی صدارت میں ہوا تو مولانا جی جان سے اس کی آب یاری میں لگ گئے۔مولانا ”جمعیۃ“کے ”سابقین اولین“کی حیثیت رکھتے تھے‘ اس کے روز اول سے ہی اس میں آپ کی ”خادمانہ“شمولیت رہی اور ”جمعیۃ“سے ان کا یہ ربط تادم واپسیں قائم رہاحالانکہ اس راہ میں بے شمار جاں گداز مراحل آئے اور متعدد پریشان کن مواقع نے ان کی راہ روکنا چاہالیکن جب بھی ان کے پاؤں کے چھالوں نے منزل کی دوری کا شکوہ کیاتو انہوں نے بہ جائے حوصلہ ہارنے کے ایک نئے ولولے کا مظاہرہ کیااورآبلہ پاہونے کے باوجود ”جمعیۃ“کے لئے دیوانہ وار چلتے رہے‘آپ کے عزم کی بلندی اورارادے کی پختگی کو دیکھ کرمتعجب نگاہیں بے اختیار کہہ اٹھتیں:
اولوالعزمان دانش مند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریابہاتے ہیں
پھر 4/ستمبر 1920؁ کو کلکتہ کی کانفرنس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جانب سے پیش کئے گئے ”تحریک عدم تعاون“کومنظوری حاصل ہو گئی تو چوں کہ ”تحریک خلافت“اس سے پہلے منظور ہو چکی تھی اور اپنی منزل کی جانب محو سفر تھی اس لئے اب ”تحریک عدم تعان“نے پورے ملک کے اندر ایک انقلابی کیفیت بپاکردی تھی۔مولانا ان دونوں تحریکوں میں نہ صرف پیش پیش رہے بلکہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہنداور خصوصاََ مسلمان بہار کو منظم اور متحد کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بھی یہ تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور ”امارت شرعیہ“-جو مولاناکا ایک دیرینہ خواب تھااور اس کے لئے آپ برسوں تگ  ودو میں مشغول رہے-کے قیام کی راہ میں حائل دشواریاں بھی دور ہٹتی ہوئی محسوس ہو نے لگیں اور بڑی حد تک اس کے لئے راہ ہموار ہونے لگی۔یہاں تک کہ روز وشب کی جاں گسل کوششوں اور جی توڑ محنتوں نے رنگ لانا شروع کردیااور بالآخر 1921 ؁ء میں ”امارت شرعیہ“وجود پذیر ہوا جو مولاناابوالمحاسن محمد سجادؒکے حسن تخیل‘مولاناابوالکلام آزادؒ کی توثیق وحمایت اور قاضی احمد حسین ؒ کے کاوشوں کا ثمرہ تھا۔
اس کے بعد جب ”مانٹگو چیمس فورڈ ایوارڈ“کے مطابق جب ہندوستان کے لئے نیا قانون وضع کیا گیا اور اس کی تنفیذ عمل میں آئی تو صوبائی ومرکزی اسمبلیوں کے انتخابات جے سلسلے میں مختلف مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔”تحریک خلافت“اور ”تحریک عدم تعاون“کے دوران مسلمانان ہند نے ایک دوسرے سے مربوط ہو کر مکمل اتحاد کامظاہرہ کیاتھالیکن جب یہ تحریکیں دم توڑ گئیں تو کانگریس کی مکارانہ پالیسیوں نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا شروع کردیاتھا یہاں تک کہ انتخابات میں بھی مسلم حلقوں کو نظر انداز بلکہ پس انداز کرکے انہیں مزید زک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔گو کہ مسلمانان بہار کانگریس کے اس متعصبانہ رویے سے حد درجہ بد دل اور ناراض تھے مگر دوسرے صوبوں کے مسلمانو ں کی طرح کاکانگریس کی مخالفت پر کھڑے نہیں ہوئے تھے جس کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ”مسلم لیگ“کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم تنظیم یاپارٹی نہ تھی۔
جب مرکزی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوا تو پرانے”خلافتی“”لیگی“اور”جمعیتی“ذمہ داران کی مدد سے”مسلم یونیٹی بورڈ“تشکیل دے کرہندوستان کی آزادی کے لئے مر مٹنے والے اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار مسلمانوں کو انتخابی میدان میں اتارا گیا۔ اس ”یونیٹی بورڈ“سے الیکشن لڑنے والے چار میں سے تین نے اپنی جیت درج کروائی۔جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی جب صوبائی اسمبلی کے الیکشن کاوقت آیا توکانگریس کو مسلم حلقوں کے متعلق نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے پوری دور اندیشی کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑا۔پھر بھی کانگریس نے ”امارت شرعیہ“کے ساتھ جانے کے بہ جائے ”مسلم لیگ“کے تعاون سے انتخاب لڑنے کو ترجیح دیا۔چناں چہ مسٹر محمد علی جناح نے بہار میں ”مسلم لیگ“کو استحکام بخشنے کی خاطر بہار سے کچھ مخصوص و معروف چہروں کا انتخاب کرکے اپنے پارلیامینٹری بورڈ میں بھی شامل کر لیا۔کانگریس اور مسلم لیگ کے اس اتحاد کی وجہ سے ”امارت شرعیہ“کو یہ مشکل پیش آئی کہ”امارت شرعیہ“ جہاں ”تحریک خلافت“میں شامل ہوکربہترین کار کردگی کے سبب مسلمانوں کی حمایت اور ان کا اعتماد حاصل کر چکی تھی وہیں ”مسلم لیگ“اس تحریک کی مخالفت کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر چکی تھی یہی وجہ تھی کہ مسلمان ”مسلم  لیگ“اور مسٹر جناح سے بد ظن بلکہ بڑی حد تک متنفرہو چکے تھے۔ایسے نازک ترین حالات میں مسلمانوں کو ایک بار پھر ایسی جماعت کے ہاتھوں سونپ دینا جوان کے جذبات کا پاس ولحاظ کئے بغیرفیصلہ کرتی ہواور اس کی قطعاََپرواہ نہ کرتی ہوکہ اس فیصلے سے کن احساسات کو چوٹ پہنچے گی اور دلوں کے کتنے نازک آبگینوں کو ٹھیس لگے گی؛گویا خود ”امارت شرعیہ“کے لئے خود کشی کے مرادف تھا۔ذمہ داران ِامارت ذہنی کش مکش مین مبتلا اور گو مگو کی کیفیت سے دوچار تھے۔
چناں چہ مولانا نے اس پیچیدہ اور بظاہر لاینحل سے نظر آنے والے اس مسئلے پرغوروخوض اوراس کے حل کی تدبیر کرنے کی غرض سے ”امارت“کے زعماء کی میٹنگ بلائی جس میں دو فیصلے لئے گئے۔وہ دواہم ترین فیصلے یہ تھے:پہلایہ کہ”امارت شرعیہ“مسلمانوں کی سیاسی رہ نمائی کے لئے خود آگے بڑھے اورالیکشن کی مہم کو سر کرنے کے لئے ایک نئی پارٹی تشکیل دی جائے؛اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی دوسری مجلس”امارت شرعیہ“کے اصول و ضوابط کے مطابق تشکیل دی جائے تو”امارت“اس کی حمایت کرے گی۔اس فیصلے کو عملی شکل دینے کے لئے ”امارت شرعیہ بورڈ“قائم کیاگیااورمولانانے اس میں ”امارتی“،”خلافتی“اور”جمعیتی“کارکنان کے علاوہ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ اور درست نہج پر چلنے و سوچنے والے طبقے کو بھی شامل کیا۔پھر ان سب کے مشورے اور تعاون سے”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کاقیام عمل میں آیاتاکہ آئندہ الیکشن میں ”مسلم لیگ“کے ساتھ چلنے کے بہ جائے اسی پارٹی سے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا جا سکے۔
”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے تاسیسی اجلاس کاانعقاد۴۱/ستمبر 1934 ؁ ء کو پٹنہ کے ”انجمن اسلامیہ ہال“میں جمعیۃ العلماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا  احمد سعید دہلوی کے زیرصدارت ہوا۔اس تاسیسی اجلاس میں مولانا کے صدہا انکار کے باوجود آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔اس کے دو مقاصد کو سب سے اہم قرار دیاگیا۔پہلا یہ کہ ملک کے مکمل آزادی کی حمایت کرنااور دوسرادینی امور میں امیر شریعت کے ہدایات کوقبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا۔پارٹی کے اراکین عاملہ کی کل تعداد اکیس تھی جن میں مولاناابولمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ کوصدر‘مسٹر محمود بارایٹ لاء(پٹنہ)کوسکریٹری‘مولانامنت اللہ رحمانیؒ کو پروپگنڈہ سکریٹری اورجسٹس خلیل احمد و مولوی محمد اسماعیل تاجر (پٹنہ)کوخازن کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ان ذمہ داروں کے علاوہ چار نائبین صدر‘چار جوائنٹ سکریٹری اور ایک پروپگنڈہ سکریٹری بھی متعین کئے گئے۔(یہ تمام تفصیلات ہفت روزہ”نقیب“کے خصوصی شمارہ”مولاناسجاد نمبر“میں صفحہ 72 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔)
عین اسی وقت بہار میں مسٹر عبدالعزیز نے”مسلم یونائیٹید پارٹی“اورمولانا شفیع داوٗدی نے ”احرارپارٹی“کے نام سے دوالگ الگ پارٹیاں بنالیں۔چوں کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانے کااندیشہ تھا اس لئے مولانا نے دونوں پارٹیوں کو ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“میں ضم کرنے کی حتی المقدورکوشش کی لیکن مذکورالصدر دونوں پارٹیوں کے سربراہان اپنی بات پر اڑے رہے اوراس کے لئے تیار نہ ہوئے بالآخر کوئی نتیجہ نہ نکلتے دیکھ کر ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کو تنہا اپنے بوتے پر انتخاب لڑنے کے لئے کمر کس لیناپڑا۔”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“چوں کہ مسلمانان بہار کے لئے امید کی کرن بن کر نمودار ہوا تھااس لئے اس کے حوالے سے ان میں کافی جوش وخروش پایا جارہاتھایہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کی صرف نیک مشوروں سے ہی نہیں بلکہ جان ومال ہر طرح سے مکمل اعانت کی تھی۔مسلمانوں کی اس بھرپور حمایت وتعاون کااثر یہ ہوا کہ انتخابی نتائج مخالفین کے لئے نہایت ہی حیران کن وحوصلہ شکن جب کی حامیین وموء یدین کے لئے حددرجہ امید افزاء ثابت ہوئے۔
انتخابات کے اس چونکادینے والے نتیجے کے بعد نہ صرف یہ ہوا کہ ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“نے بہار کے پچاس فی صدمسلم سیٹوں پر کام یابی حاصل کی بلکہ یہ پارٹی کانگریس کے بعد سب سے بڑی پارٹی کے طور پرابھری۔پارٹی کی زبردست مقبولیت میں ”امارت شرعیہ“کی بہترین کارکردگی‘ مولانا کی ترقی پسندانہ حکمت عملی‘ اوران کے مخلص رفقاء کاروبے لوث معاونین کی ان تھک کوششوں کوبہت زیادہ دخل تھا۔(پارٹی کے کامیاب امیدواروں کی فہرست بھی ”نقیب“کے ”مولاناسجاد نمبر“میں دیکھی جاسکتی ہے۔) ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے مقبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈلٹا اپنی کتاب ”فریڈم موومنٹ ان بہار“میں رقم طراز ہیں کہ: ””مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“کے الیکشن مینی فیسٹو میں زرعی اصلاحات اور مہاجنی لوٹ پر روک لگانے کے متعلق مسلم لیگ اور کانگریس سے زیادہ ترقی پسندانہ مطالبات تھے۔“ چوں کہ1937؁ء کے صوبائی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 152/میں سے 98/نشستیں ملی تھیں اس لئے گورنر بہار نے کانگریس کووزارت تشکیل دینے کے سلسلے میں مدعو کیامگر چوں کہ گورنر بہار نے کانگریس کی جانب سے پیش کئے گئے شرائط کو ماننے سے انکار کردیا اس لئے کانگریس بھی اس پیش کش کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔اب دوسری پارٹی جو کانگریس کے بعد اکثریت میں تھی وہ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“تھی‘چاناں چہ وزارت کی تشکیل کے لئے اسے ہی بلایاگیا۔مولانانے تشکیل وزارت سے قبل اراکین عاملہ کی میٹنگ طلب کی۔میٹنگ کے شرکاء میں سے کچھ رائے تھی کہ وزارت بنالی جائے جب کہ کچھ لوگوں کے خیالات اس کے بر عکس تھے۔ بہ ہر حال:بعد بحث و تمحیص کے وزارت قبول کر لی گئی اوریکم اپریل ۷۳۹۱ ؁ء کومسٹر محمد یونس نے بہار کے ”وزیر اعظم“کاحلف لے لیا۔مولانا کی سرپرستی میں بنائی مسٹر محمد یونس کی وزارت گو کہ ایک سو بیس ہی دن قائم رہ سکی اور گورنر بہار اور کانگریس کے درمیان مصالحت ومفاہمت کے بعد کانگریس نے وزارت قبول کر نے کی حامی بھر لی تو مسٹر محمد یونس کو وزارت عظمی سے مستعفی ہوناپڑا مگر اس تھوڑی مدت اور قلیل عرصے میں ”مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی“نے بہتیرے فلاحی کام انجام دئیے جو تاریخ کے سنہرے اوراق کی زینت ہیں۔ مولانا کاسیاسیات میں آنے اور اسے ”منہ لگانے“کامقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھاکہ احکام شرعیہ کا نفاذ کلی طور پر نہ سہی لیکن کم از کم شعائر اسلام اور مسلمانوں کا تشخص حالات کی ستم ظریفی کے نذر نہ ہونے پائیں اور یہ پوری قوم اپنے مذہبی احکامات پر مکمل آزادی اور کسی آئینی بندش کے بغیرعمل کرسکے۔اس ”آزادی“ کے لئے مولانا کی دوررس نگاہ میں اس کے علاوہ کوئی کوئی سبیل نہ تھی کہ باہر سے غل غپاڑہ مچانے کے بہ جائے باضابطہ سیاست میں شمولیت اختیار کی جائے اور پوری ثبات قدمی کامظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کئے جائیں تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے آواز کی دھمک ایوان حکومت کے بلند وبالا دیواروں پر بھی محسوس کی جاسکے اورمسلمانوں پر پڑنے والی آئینی زد کا مداوا بھی بسہولت ممکن ہوسکے ورنہ یوں ہی صرف شور شرابہ کارویہ اپنانے سے: کون سنتاہے فغان درویش؟
 مولانا سیاست کی باگ علماء کے ہاتھوں میں دیکھناچاہتے تھے اور انہیں بہ خوبی اس کا علم تھاکہ علماء ہی میدان سیاست میں قوم کی بہترین رہ نمائی وسربراہی کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔خدا مغفرت کرے شاعر مشرق کی کہ وہ اگر مولانا کی ذات‘ان کے عزائم‘منصوبوں اور ان کے سیاسی کارناموں سے واقف ہوتے تو انہیں ہرگز یہ نہ کہنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی کہ:
 قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
 کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام؟
 کیوں کہ کہ مولانا بہ یک وقت ”دو رکعت کے امام“بھی تھے‘بوریہ نشیں مدرس بھی اور میدان سیاست کے سرخیل بھی! مولانا کے سیاسی تبحر اور آئین پر بے پناہ دست رس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتاہے کہ مولانا شفیع داوٗدی اور مولاناکے فکری اختلاف کی وجہ سے حالات کچھ سنگین سے ہوتے چلے گئے اور بعض حضرات کے مطابق یہ اختلافات رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی مخالفت کی صورت اختیار کرتے چلے جارہے تھے۔اس لے پٹنہ کے کچھ مخلصین نے اس صورت حال سے نمٹنے اور اس الجھتے معاملے کو سلجھانے کی غرض سے باہمی مصالحت کی راہ نکالنی چاہی اور اس کے لئے دونوں یعنی مولاناابولمحاسن اورمولانا شفیع داوٗدی کو ایک جگہ مدعو کیااور دونوں حضرات سے یہ کہا گیا کہ ”آپ آپسی گفتگو کے ذریعہ ایک دوسرے کے نقطہائے نظر سے واقف ہوں تاکہ یہ اختلافات ختم ہوں اور اسی بحث و تمحیص کے ذریعہ مسلمانان ہند کے لئے کوئی اچھی سی راہ نکل سکے۔“مجمع اچھا خاصا تھا جس میں ایک معتد بہ تعداد ذی فہم‘صاحبان بصیرت حضرات کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کی بھی تھی۔یہ ”مصالحتی مجلس“ڈاکٹر سید عبدالحفیظ فردوسی کے کوششوں کا ثمرہ تھی‘ حقیقی معنوں میں وہی اس کے منتظم اعلی تھے اور یہ مصالحتی کوشش ان ہی کی ذہنی اپج تھی۔گفتگو شروع ہوئی تو ”زلف لیلیٰ“کی طرح دراز سے دراز تر ہوتی چلی گئی اور جس گفتگو کا آغاز عشائیہ کے بعد ہواتھا وہ فجر تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد کرنے میں کام یاب نہ ہو پائی تھی‘مجمع اب بھی پورے سکون ووقار اور نہایت دل چسپی کے ساتھ فریقین کے موقف کی درستگی اور دلائل کی قوت کے پرکھنے میں مصروف تھا۔مولانا شفیع داوٗدی کو اس وقت لاہور کا سفر درپیش تھا کہ دوران گفتگو اسی سلسلے میں دنیا کے دیگر ممالک کے سیاسی نظام کی طرف بات چل پڑی‘مولانا شفیع داوٗدی اس کے متعلق کچھ کہناچاہتے تھے کہ مولانا نے ٹوکا اور پھر ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے آئین وقوانین کے بارے میں بتلانا شروع کیا کہ:فرانس کا نظام یہ ہے‘اٹلی میں یہ قانون چلتا ہے‘امریکہ میں یہ آئین نافذ ہے‘ترکی کیاندر یہ سسٹم رائج ہے اور مولانا تھے کہ بے تکان بس بولتے ہی چلے جارہے تھے؛مجمع حیرانی و استعجاب کی تصویر بنے انہیں دیکھ رہا تھا۔”کانسٹی ٹیوشن“کے متعلق معلومات سے پر اس گفتکو کو سن کرنہ صرف وہاں موجود سننے والوں کو بلکہ مولانا شفیع داوٗ دی کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ مولانا صرف ایک روایتی عالم اور مذہبی معلومات پر اکتفاء کرنے والی شخصیت نہیں ہیں بلکہ آپ کی دقیقہ رس نگاہ اقوام عالم کے اصول وقوانین پر بھی زبردست گرفت رکھتی ہے۔آپ کی گفتگو کے اس رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاتھاکہ:
 انگشت بہ دنداں ہیں زمیں‘چاند‘ستارے
 مولانا کی سیاست ہمیشہ شریعت کے آگے دست بستہ کھڑی رہتی‘کبھی بھی کسی بھی موقع پر ان کی سیاست ان کے شریعت پر غالب نہیں ہو سکتی تھی بلکہ شریعت پر حملہ آور ہونے کو سونچ بھی نہیں سکتی تھی۔آپ کی سیاست منافقت‘کذب بیانی اور فریب کاری اور مداہنت کے رہین منت نہیں تھی بلکہ ہر موقع پر آپ نے: آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اور ہزار خوف ہو‘لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہاہے ازل سے قلندروں کا طریق کاعملی ثبوت پیش کیا۔آپ حق بات کہنے میں کبھی کسی ”مصلحت“کے شکار نہیں ہوئے بلکہ تمام ”مصلحتوں“کو بالائے طاق رکھ کر حقائق کو بیان کرنے میں کسی پس وپیش اور لومۃ لائم کی پرواہ کئے بنازبان حال سے: جو سچ سمجھتاہوں وہی کہنے کاعادی ہوں میں اپنے”شہر“کاسب سے بڑا ”فسادی“ ہوں کہتے رہے۔ انہوں نے ان بیرسٹروں کوبھی دنداں شکن جواب دیاجنہوں نے سیاست پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور میدان سیاست کے تمام حصوں پر”ریزرو“کابورڈ لگاکر خوداس پرقا بض رہناچاہتے تھے۔انہوں نے ایسے وقت میں نہ صرف سیاست کے رخ کو تبدیل کردیا بلکہ ایک نئی طرح ڈالی جب کہ علماء کے لئے سیاست کو”شجر ممنوعہ“قرار دے دیا گیا تھا اور مولانا عبداللہ عباس ندویؒ کی زبان میں ”ایک بڑا گروہ نام نہاد دانش مندوں کا تھا‘جس نے سیاست کاحق ان بیرسٹروں کے لئے خاص کر رکھاتھا جوانگلستان سے چودہ ڈنرکھاکے آئے ہوں۔“ یہ تھی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ والرضوان کے سیاسی کارناموں کی مختصر روداد‘ادنی جھلک اور معمولی سا عکس ورنہ: طویل عمر درکار ہے اس کے پڑھنے کو ”ہماری“ داستاں اوراق مختصر میں نہیں مولانا کی حیات بابرکات نہ صرف قابل صد ستائش ہے بلکہ ان کی بلندوبالاذات لائق تقلید بھی ہے یہی وجہ ہے کہ دیدہ وروں نے ان کی سیاسی بصیرت کو دیکھ کر اسی وقت کہہ دیاتھا کہ:
 غبار راہ سے کہہ دو سنبھالے نقش قدم
 زمانہ ڈھونڈے گاپھر ان کو رہ بری کے لئے
(پیش نظر تحریر میں بیش تر  ”حیات سجاد“اور”مقالات سجاد“سے استفادہ کیاگیاہے۔)
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:اپریل 2014ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں