جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

عورتوں کا محافظ کون؟اسلام ۔۔۔ یا ۔۔۔ مغرب؟؟؟

آج کے اس مہذب دورمیں عورتوں پرظلم و ستم کا پھر وہی لامتنا ہی سلسلہ شروع ہوچکاہے۔جوآج سے چودہ سوسال قبل تھامگران دونوں کے مابین  اتنا فرق ضرورہے کہ کل انکااستحصال انہیں ذلیل،کمتر اورکمزور کہہ کر کیا جارہاتھااورآج انکااستحصال انہیں آزادی اورترقی دینے کے نام پرکیا جارہاہے۔کل دوروحشت وبربریت میں انکا قتل وحشیانہ طریقہ پر کیا جا تاتھا۔اورآج اس مہذب وترقی یافتہ دور میں انکا قتل     مہذب طریقہ پرکیاجارہاہے۔جولوگ آزادیئ نسواں کے علم بردارہیں انہیں نہ عورتوں کے حقوق سے کوئی مطلب ہے اورنہ انہیں انکی آزادی سے کوئی دلچسی ہے۔بلکہ یہ عورتوں کوہرے باغ دکھلا کرانکے عفت وعصمت سے کھلواڑ کرنا اور انہیں کھلونابناناچاہتے ہیں۔ آزدایئ نسواں کے علمبر داراوراسکادم بھرنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن مقدس نے مغضوب وضالین کہاہے کیونکہ یہ گمراہ لوگ ہیں یہی وجہ ہیکہ انہیں ہر شیئ الٹی نظرآتی ہے۔ انکے یہاں روشنی کا نام تاریکی اورجنوں کانام خردہے۔انہوں نے عورتوں کوترقی دینے،مردوں کے دوش بدوش چلانے اورانہیں اعلی مناصب دلانے کے نام پرانکے ساتھ کس قدرفراڈ کیاہے اسکے اندازہ کیلئے ہم چندلوگوں کے چشم دیدہ مشاہدات پیش کرنا چاہیں گے۔
”میں نے یورپ میں ایک فیکٹری میں دیکھا کہ سامان اٹھا کرایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کیلئے چارلڑکے تھے،وہ بھی بوریوں کوکمرپر رکھ کر لے جارہے تھے اوردولڑکیاں تھیں،انہوں نے بھی کمرپرا پنی اپنی بوری اٹھائی ہوئی تھی اورچل رہی تھیں تو میں نے اس فیکٹری کے منیجرسے کہا کہ یہ کیاNon senceہے کہ آپ نے لڑکیوں کویہ کا م دے دیا وہ کہنے لگا:جی اگر یہ کام نہیں کریں گی کھائیں گی کہاں سے؟“(سکون دل،ص۶۸.۷۸از:پیر فقیر ذالفقاراحمد نقشبدی)
  ؔؔ”مغر بی معاشرہ میں جتنے نچلے درجہ کے کام ہیں وہ تمام تر نہ سہی تو بیشتر ضرور،عورت کے حوالے ہیں۔اس دوران ہمیں دسیوں ہوٹل میں جانے کااتفاق ہوا،وہاں مردبیرا شاذو نادرہی نظرآیا، عام طور  سے  یہ خدمت عورتوں کے سپردہے۔دوکانوں پرسودابیچنے کا کام بھی اکثروبیشترعورتیں ہی کرتی ہیں۔اورٓیہ نہیں کہ گھر سے باہر کے یہ فرائض انجام د ینے کے بعدعورت کو امورخانہ داری سے چھٹی مل گئی ہو،گھرکی دیکھ بھال اور بچوں کی نگہداش بھی عام طورسے اسی کے سپردہے۔“(جہان دیدہ ص۹۴۱از:مفتی محمدتقی عثمانی)                                                                        دیکھا آپ نے!اسلام نے انہیں شمع محفل بنانے کے بجائے چراغ خانہ بناکر کیسا احسان عظیم فرمایا ہے۔لیکن جب انہوں نے قانون فطرت کی خلاف ورزی کی توپھردنیا میں بھی ایذاء ومصائب کومول لے لیااور آخرت کی تبا ہی وبربادی کا توکہنا ہی کیا
                                 ع  نہ خدا ہی نہ وصا ل صنم
 لہذا:عورتوں کو چاہیے کہ ان کے بہکاوے میں ہرگز ہرگزنہ آئیں جو یہ کہ کر انھیں ورغلانے اور بہکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قید اورغلامی کی علامت ہے کیونکہ ساری دنیاکا یہی اصول ہیکہ جو شئی قیمتی و گراں مایہ ہوتی ہے اسے پنہاں وپوشیدہ رکھاجاتا ہے یہی وجہ ہیکہ اسلام نے انھیں پوشیدہ و مخفی رکھنے اور رہنے کی ہدایت کی ورنہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اسلام انھیں بے وقعت،بے مایہ،ذلیل،غلام اور قیدی سمجھتا ہے۔اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں عورتوں کا حقیقی محافظ کون؟اسلام...یا...مغرب..؟!
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:مارچ 2010

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں