ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

ویلنٹائن ڈے:یہ محبت ہے یا پھر توہین ِمحبت؟

ہمیں‘خصوصاََ ہماری نوجوان نسل کومغربی تہذیب نے چہار جانب سے اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھاہے۔وہاں کی بدبودار ہواؤں میں بھی انہیں باد نسیم کے جھونکوں کا لطف ملتا ہے۔ان کی نگاہ نارسا میں جس چیز پر مغربیت کا لیبل چسپاں ہو جائے خواہ وہ عقل وخرد کی رو سے بھی حرکت مذموم کے زمرے میں آتا ہو‘اس سے لاتعداد سماجی ومعاشرتی برائیاں برائیاں بھی کیوں نہ پنپ سکتی ہوں لیکن چوں کہ اس کے  اوپر مغربیت کا لبادہ ہے اس لئے:
 اس کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے
چنانچہ اسی ذہنی محکومی اوراور فکری غلامی نے نوجوانوں سے ان کی حس تمیز کی قوت کو سلب کرلیا ہے اورانہیں خوبی و خامی کے درمیان امتیاز کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔انہیں مغرب سے ”امپورٹ“ کی ہوئی ہر چیزخواہ وہ طرز معاشرت ہو یا طریقہئ رہائش‘عریانیت کی منہ بولتی تصویر وہاں کے ملبوسات ہوں یاطوفان بد تمیزی اور فحاشی سے پر وہاں کے تہوار غرض یہ کہ ان کے محبوس و مقید عقل کے مطابق کسی شے پر مغربی ہونے کی مہر ہی اس کی عمدگی کی دلیل ہے جس کے بعد اس کے کام یاب اور نفع بخش ہونے کے لئے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے ذریعہ ہماری اخلاقی قدریں تباہ ہوں یا ہماری روایات کا جنازہ نکل جائے‘انہیں فکر ہے تو بس اس بات کی کہ کس طرح مغرب پرستی اور ان کی تقلید میں ہم دوسروں سے بازی لے جاکران کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اپنے ”اسٹیٹس“کو اونچا کر سکیں۔انہیں اس کا ذرا خیا ل نہیں کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ:
معیار زندگی کو بڑھانے کے شوق میں
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا
مغرب سے درآمد کئے گئے بے شمار ناپاک و کریہہ رسوم  ورواج اورتقریبات و تہوار میں سے ایک نہایت بد ترین تہوار”ویلنٹائن ڈے“بھی ہے  جو ہر سال 14/فروری کو مکمل بے حیائی‘عریانیت اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منایا جاتا ہے۔جس کی قباحت و شناعت کے اندازے کے لئے محض اتنی  بات کافی ہے کہ یہ تہوار”ویلنٹائن“نامی ایک بدکار،زانی اور بد بخت پادری جانب منسوب ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس دن کو ”یوم عشاق“کا نام دے کرلفظ عشق کو بدنام اور لفظ کی تذلیل کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دن محبت کرنے والوں کا ہے اور یہ اظہار محبت کا نہایت مناسب ترین موقع ہے۔ جائے صد افسوس ہے کہ کل تک یہ تمام باتیں اغیار کر کے منہ سے سننے میں آتی تھیں اور وہی اس دن کی ناجائز وکالت کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر رفتہ رفتہ یہ باتیں ان سے بھی سنی جانے لگیں اور یہ طرز گفتگو ان کا بھی ہوتا چلا جارہا ہے جو مشرقی ہونے کے دعوے دار ہیں اور اپنی مسلمانی کا شب وروز دم بھرتے رہتے ہیں لیکن در حقیقت انہیں اپنے مشرقی ہونے پر ندامت اور اپنے مسلمانی پر پشیمانی ہے‘جو اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر ناچنے میں ذلت وحقارت کے احساس سے دوچار ہونے کے بہ جائے فخر و مسرت کے جذبات سے لب ریز نظر آتے ہیں‘جو مغربیت کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور زبان حال سے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ:
انہی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
انہی کے مطلب کی کہ رہا ہوں‘زبان میری ہے بات ان کی
اب ان عقل کے اندھوں کو مخاطب کرتے ہوئے سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہواتو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
ذراکوئی ان سے پوچھے کہ کیا محبت اسی کا نام ہے کہ کسی بہن کے آبگینہئ عفت کو چور چور کر دیا جائے؟کیا عشق اسی کا نام ہے کہ کسی بیٹی کی ردائے عصمت کو سربازار تار تار کر دیا جائے؟اور کیا پیار اسی جذبے کا نام ہے کہ کسی گھر کی عزت کہی جانے والی دوشیزہ کی پاکیزگی کے دامن پر دھبے لگا کر اسے داغ دار کر دیا جائے؟اس طرح کی  الٹی منطق سمجھانے والوں اور اس دن کو ”یوم محبت“ کے طور پر”سیلیبریٹ“ کرنے والوں کویہ ضرور سوچنا چاہئے کہ یہ ناپاک حرکتیں جوآج ان کے ہاتھوں سرزد ہورہی ہیں اگر اسی ذہنیت کے مالک کسی منچلے نے ان کی بہن یا بیٹی کے ساتھ اس طرح کی چھچھوری حرکتیں کرنے کی کوشش کی تو کیا ان کی غیرت انہیں جھنجھوڑ کر نہیں رکھ دے گی اور ان کا وجود اس بد قماش کے لئے اس برق تپاں کی مانند ثابت نہیں ہوگا جو اس کے جسم وجان کی پوری عمارت پل بھر میں خاکستر کرنے کو بے تاب ہو؟اگر اس کی عزت نفس یہ گوارا کرنے کو تیار نہیں ہے تو یہ تصور کس طرح کر لیا جاتا ہے کو دوسرا اپنے بہن‘بیٹی کی عزت نیلام ہوتے دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا‘کیا یہ”لینے کے باٹ اور‘دینے کے باٹ اور“والی بات نہیں ہے؟شاید ایسے ہی کسی موقع پر شاعر نے اپنے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ:
کانٹوں کو بچھاکر یار مرے گلشن کی توقع رکھتے ہیں
شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
سوال یہ ہے کہ محبت اور اظہار محبت  کے لئے اسی دن کا انتخاب کیوں؟کیا اسلام نے ہمیں محبت کے حق سے محروم کر رکھا ہے؟کیا اسلام میں عشق کی ممانعت ہے؟ہرگز نہیں بلکہ اسلام ہمیں محبت کی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ محبت جو پاکیزہ‘بے لوث اور خلوص کے ساتھ ہو؛ایسی محبت کہ جب ایک ماں اپنے بچے کے لئے اس فکر میں جاگتی رہی کہ اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک اس کا نوجوان بیٹا ابھی گھر نہیں لوٹا ہے‘جب ایک باپ کھانے سے اپنے ہاتھ صرف اس انتظار میں روکے رکھے کہ اس کا لخت جگر بھوکے پیاسے ا بھی آتاہی ہوگا‘جب ایک بہن بھائی کے  لئے اپنی نیند قربان کر کے اس کی راہ تکتی ہو‘جب ایک بھائی اپنی پسندیدہ ومرغوب چیز پر دوسرے بھائی کو ترجیح دے‘جب ایک بیوی  اپنے زیست کی دشوار گزار گھاٹیاں اپنے شوہر کا ہاتھ تھامے بے چوں چرا طے کرلے‘جب ایک شوہر اپنی نوجوانی  کلفتوں کاسامنا کرتے ہوئے  پردیس میں صرف اس لئے بسر کرے کہ اپنے بیوی بچوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ سکے کیوں کہ یہی حقیقی محبت‘ اس کی اصل معراج  اور اس مقدس جذبے کے اعلی ترین نمونے ہیں نا کہ وہ محبت جو صرف وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کی جائے اور اس کے زیر اثر کسی شفاف دامن پر چھینٹے اڑانے سے بھی پرہیز نہ کیا جائے اور ضرورت پوری ہوتے ہی ترک تعلق کے بہانے تلاش کئے جائیں۔بظاہر ”آئی لو یو“(مجھے تم سے محبت ہے)کے دعوے کئے جائیں جب کہ دل ہی دل میں ”آئی نیڈ یو فور سم ٹائم“(مجھے تھوڑے وقت کے لئے تمہاری ضرورت ہے)کہا جائے۔محبت تو ہمیشہ دائمی ہوتی ہے جو ”یوز اینڈ تھرو“(استعمال کرو اور پھینکو)کے بہ جائے ”ود یو آلویز“(ہمیشہ ہی تمہارے ساتھ)کا تقاضہ کرتی ہے۔یہ کون سی محبت ہے جو صرف ہوس کے پجاریوں کے لئے سامان تسکین ہو‘جس محبت ثبات ہو نہ استحکام‘جو کسی ایک کی محبت پر قانع ہونے کے بہ جائے سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہویقیناََ اس ”ہرجائی محبت“کو محبت کا نام دینا بھی اس پاکیزہ جذبے کی تحقیر وتذلیل ہے۔یہ عشق در حقیقت اس فِسق کا پیش خیمہ ہے جو ہمیشہ ہی اپنے جلو میں انارکی‘نحوست‘تعفن اور گندگی لئے آتا ہے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات!
***
____________________________
تاریخ تحریر:فروری2014ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں