ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا!!

 کامیابی کی چاہت،سرفرازی کی خواہش،تحصیل رفعت کی تمنا،کچھ کرجانے کاجذبہ،آسمان شہرت پر آفتا ب نیم روز کی طرح دمکنے کی آرزو، ہر گام انفاس کی خوشبو سے فضاء کو معطر کرنے کا شوق،گزرنے والی راہ پر اپنی یادوں کے اَن مٹِ نقوش چھوڑجانے کا ولولہ،یوں تو راہ تعلم پر محوسفر ہر راہی کے قلب ونگاہ کی وسعتیں ان سے معمورو لبریزرہتی ہیں ۔
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں او ج ثریا پہ مقیم
لیکن محض آرزؤوں کا سیل رواں اور تمناؤں کا بحر بیکراں نہ اسے کامرانی کی منزل سے ہم رکاب کرسکتاہے نہ ہی اس میں کوئی معاونت!
بلکہ اس کے لئے جی توڑ محنت،جاں گسل کوشش،بے جا اور لغو مصروفیات سے پہلو تہی، تضیع اوقات بلکہ اضاعت لمحات سے احتراز،شےء مقصود کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر لگا بلکہ کھپا دینے کا حوصلہ،انہماک مطالعہ،مواظبت کتب بینی،معصیات سے اجتناب،خواہشات نفسانی وشیطانی کی تکمیل سے احتراز،بیدارئی شب،دعائے نیم شبی،آہ سحر گاہی کے علاوہ در س اور اوقات درس کی پابندی بھی جزء ولاینفک کا درجہ رکھتی ہے۔
اس کائنات آب وگل اور جہان رنگ و بو نے جن شخصیات کا لوہا تسلیم کیا ہے اور جن قدسی نفوس کی عظمتوں کے بارگاہ میں جھک کرسلام عقیدت اور نذرانہ ئ محبت پیش کرنے کو اپنے لیے باعث صد تفاخر اور وسیلہ ئسعادت وفیروزہ بختی تصور کیا ہے۔ان کی بلندی ورفعت، فرازی وعظمت،ان کے تئیں خلقت کی عقیدت ومحبت اوران کی تعمیر وتشکیل میں یہی عناصر کار فرمانظر آئیں گے۔
علم تفسیر کی رسیا جماعت ہو خواہ شائقین حدیث نبوی کا باعظمت گروہ، باریک بیں ودوررس فقہا کا قافلہ ہوخواہ گلستان ادب کے خوشہ چینوں کا کارواں، دریائے تحقیق کے غواص ہوں خواہ منطق وفلسفہ کی پر پیچ گھاٹیوں کے مسافر؛سب نے متاع وقت کی گراں مائیگی کا احساس کرتے ہوئے ہر لمحہ اس سے انتفاع کو مقدم رکھا اور ہزارہا اعذاروموانع کے باوجود اساتذہ کے درس سے عدم شمولیت کو نہ صرف باعث محرومی تصور کیا بلکہ اپنی حرماں نصیبی اور شومیئ قسمت سے تعبیر کیا۔ رہ روانِ شوق کا یہ کارواں درس میں وقت معہودو مقرر پر حاضری اور اس پر مدوامت وپابندی کے لیے ہمہ دم ایک حاجب سے زیادہ چوکنا،سپاہی سے زیا دہ چست، بادشاہ مملکت سے زیادہ متفکر،اور کسی طفل نوخیز سے زیادہ حریص تھا۔جن کے لیے اس سے زائد رنج والم اور غم ناک واندوہناک کوئی بات نہ تھی کہ وہ درس میں شرکت نہ کرسکیں اور استاذ مکرم کی چشم کشاحقائق پر مبنی گفتگو،اپنے جلو میں گنجینہ ئ معلومات ونکات رکھنے والے خطاب،علمی گتھیوں کو سلجھاتی ہوئی تقاریر اور گنجلک مسائل کی سہل تر توضیحات وتوجیہات سے،محض اپنی غفلت اور بے جاتساہل کے سبب محروم رہ جائیں۔
ان کے نزدیک اس بوقلموں ومتغیر کائنات کی ولادت وفات،شادی وختنہ،عسرت وفراخی اور صحت وبیماری جیسی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں شریک درس نہ ہونے کے لئے،معقول عذر نہیں بن سکتی تھیں بلکہ اس سلسلے میں ان کا مسلک وموقف یہی تھاکہ  
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کا م اپنے ہی کام سے
ان کے یہاں من مانی چھٹیوں،من چاہی غیر حاضریوں اور لاحاصل تفریحات کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔وہ ہمہ وقت لیلائے علم پر قربان اور شمع آگہی پر نچھاور ہونے کی خاطر نہ صرف مستعدو تیار رہتے بلکہ اسے ابدی سعادت اور سرمدی خوش بختی جانتے۔ان کے لیے دن وہی تھا جس میں انہیں نگار علم کی ہم آغوشی سے لطف اندوزی کا موقع میسر آئے۔اور شب کے متعلق بھی ان کا زاویہ ئ نگاہ اس سے کچھ مختلف نہ تھا بلکہ ان کے دیدہئ بینامیں
شب تو وہی تھی جو تیر سے ساتھ کاٹ دی
حصول آگہی کا حرص،مقصد کی بلندی سے آشنائی اور اس کے صحیح شعور کا ہی نتیجہ تھاکہ اعذاروموانع کے باعث بھی اگر وہ درس میں شرکت سے رہ جاتے تو ا ن کی قلبی پژمردگی اور ذہنی افسردگی کو،چہر ے پر موجودشکن اور پیشانی پر ابھرنے والی سلوٹیں بیان کرتی ہوئی نظر آتیں۔ ان کی اس رنجیدگی کے اثر کو دورسے اور دیر تک محسوس کیا جاتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آج باوجود اس کے کہ  ؎
اس زمانے کو کتنے زمانے ہوئے
ان کے نام آتے ہی ہماری زبانیں شدت عقیدت سے مملوء اور فر ط محبت سے مغلوب ہوکر حرکت کرتے ہوئے بے اختیارکہ اٹھتی ہیں ”رحمۃ اللہ علیہ“ ۔
زمانہ ہوگیا گزراتھاکوئی بزم انجم سے
غبارراہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک
ذرا اپنی درخشاں وتابندہ تاریخ اور نورپیکر،جفاکش وشاہیں جگر اسلاف کے حیات بابرکات کی جانب نگاہ اٹھا ئیے!
یہ یعقوب ہیں لیکن دنیائے فقہ میں ”ابویوسف“کے نام سے معروف۔ فقہ،خصوصا َ فقہ حنفی کا کون شیدائی ہے کہ یہ نام اس کی سماعتوں سے ٹکرائے اور اس کے کائنات قلب وجگر میں عقیدت و محبت کی برقی لہر نہ دوڑ جائے۔ اپنے استاذ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی خدمت میں مدت طویل گذارنے کی سعات سے بہروہ ور ہوئے مگر اس عرصہ درازبلکہ درازتر میں کوئی دن ایسانہ تھا کہ نماز فجر میں امام اعظم کے ساتھ شرکت نہ کی ہو، اثناء تعلیم ہی ان کے سرورقلب ونورچشم،فرزندہنرمند نے عالم فانی سے کوچ کیا تو اس کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہونے کے بجائے یہ ذمہ داری اپنے اقرباء کو محض اس خوف سے سپرد کردی،کہیں یہ مشغولیت مجھے استاذ باوقا ر کے بیش بہا ملفوظات وفرمودات کے کسی ادنی حصے سے بھی محروم نہ کردے کہ آئندہ پھر اس کی تلافی ومکافات کی صورت بھی نہ ہوسکے  ۔
دام ہر موج مین حلقہئ صدکام نمنگ
دیکھو! کیا گذرے ہے قطرے پہ گہرے ہونے تک
اوریہ ہیں ”ابن جوزی ؒ“دنیا ئے تصنیف وتالیف کے بے تاج بادشاہ۔ خود فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنی انگلیوں سے دوہزار جلدیں تحریر کی ہیں“۔جب ان کا وقت موعود آپہنچا تو احباء کو وصیت کی غسل کا پانی اس کترن اور برادے سے گرم کیا جائے جو حدیث پاک لکھنے کے دوران اکھٹا ہوگئیں،چنانچہ تعمیل حکم میں ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ وہ کتر ن اور برادے اس کے لیے کافی ہوگئے بلکہ اس سے معتدبہ حصہ بچ بھی گیا۔اپنے ایام طالب علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے خود تحریرکرتے ہیں کہ ”میں اساتذہ وشیوخ کے حلقات درس میں حاضری کے لیے اس قدر عجلت سے کام لیتا تھا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھولنے لگتی۔“
سارا کلیجہ کٹ کٹ کے جب اشکو ں میں بہ جائے ہے
تب کوئی فریاد بنے ہے تب مجنوں کہلائے ہے
اب ابراہیم حربی کے بارے میں ان کے استاذ مہربان اما م النحو واللغۃ احمد بن یسار معروف بہ ”ثعلب“ کو سنیے!
فرماتے ہیں کہ پچاس برس سے برابر میں انہیں اپنی مجلس میں حاضر پاتا ہوں،کبھی انہوں نے ناغہ نہیں کیا    ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور یہ منظر بھی قابل دیدہے کہ مدینہ منورہ میں امام دارالہجرہ مالک بن انس ؒ کا درس جاری ہے۔ درمیان درس باہر شورسا ہوا معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہاتھی آیا ہوا ہے،چونکہ یہ نادرالوجود مخلوق ساکنا ن نجدوحجاز کے لیے شیئ عجیب کی حیثیت رکھتاہے۔لہذا طلبہ درس کی پرواہ کئے بنا دوڑے چلے گئے لیکن ایک لڑکا اب بھی اپنی نشست پرَ سکو ن وطمانیت کی تصویر بنے درس کی سماعت میں منہمک تھا۔اس نے کوئی ہلکی سی جنبش بھی نہ کی گویا اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ آخر کار استاذ محترم کو دریافت کرنا ہی پڑا۔انہوں نے اس طالب علم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”یحی!تم اندلس کے باسی ہو اور ہاتھی تمہار ے یہاں بھی نہیں ہوتے پھر تم اسے دیکھنے کیوں نہیں گئے؟“۔یحیٰ کا جواب واقعی ایک شائق اور مقصد حصول سے آشنا طالب علم کا جواب تھا اس نے کہا ”استاذ محترم!میں اتنی طویل مسافت طے کرکے علم سیکھنے آیاہوں نہ کے ہاتھی دیکھنے“۔یہ جواب سن کر جو ہر شناس استاذ کا چہرہ فرط مسرت سے کھل اٹھااور ان کی بارگاہ سے اسے دونوں جہاں کی دعائے شادکامی کے علاوہ ”عاقل اندلس“کا لقب عطا کیا گیا  ۔
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشنی شررتیشہ سے ہے خانہ فرہاد
یہ بطور”مشتے ازخروارے“ کاروان علم کے چند سراخیل کا متاع وقت کی حفاظت وصیانت کے تئیں بیداری اور علم وفن کے تابندہ یواقیت وجواہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے لیے کی جانے والی مساعی کے عکس جمیل کی ادنی جھلک تھی ورنہ   سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
کاوش پیہم،جہدمسلسل،محافظت وقت،مواظبت درس؛یہ وہ چند عناصر ہیں جن سے ان شخصیتوں کے بافیض وجود نے تشکیل پائی اور ان قدسی صفات کے ذریعہ اپنے بعد اس عالم گیتی میں و جود پذیر شائقین علم وفن کے لیے اپنے نقوش قدم بصورت مشعل راہ چھوڑگئے۔
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلہم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع
پھر کیا وجہ ہے کہ:
یہ تو سب چاہتے ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
 لیکن اس شرط شاد کا می کو پس انداز کرتے ہوئے کہ:
پہلے پید ا تو کرے کوئی ایسا قلب سلیم
٭٭٭
_______________________
تاریخ تحریر:مارچ 2013ء

1 تبصرہ:

  1. ماشأاﷲ احمدبھائی بہت عمدہ مضمون ہے میں یہ مضمون جب بھی پڑھتاہوں الگ ہی مزا ملتا ہے بہترین تراکیب خوبصورت الفاظ کا چناؤ عمدہ سلاست اور روانی ہے

    جواب دیںحذف کریں