جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

ہائے کسے سونپ دیا فیصلہء سود وزیاں ہم نے۔۔!!؟

وقت بھی آخر کس قدر تیز رفتار ہے.....!!؟دن ہفتوں  میں .....ہفتے مہینوں میں .....مہینے برس میں .....تبدیل ہوتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے.....!؟
انسان کی زندگی بھی تو سفر کی مانند ہے.....جوہر لمحہ اسے اسکے  منزل کی جانب لئے چلی  جا رہی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے.....۱۱۰۲ کا آغاز بڑے ہی آن بان سے سے ہوا تھا..... لیکن وہ بھی دیکھتے ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا.....اور شمسی کلینڈر کے نئے سال ۲۱۰۲ کا استقبال کیا جارہا ہے۔
چاروں جانب جشن کا ماحول ہے.....آسمان پر آتش بازیوں کے رنگین نظارے دکھ رہے ہیں ..... نئے سال کے استقبال میں تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے.....گریٹنگ کارڈس کے تبادلے ہو رہے ہیں .....موسیقی کی بے ہنگم آواز سے کان دھرنا مشکل معلوم ہو رہا ہے.....ایک دوسرے کو مبارکبادیاں پیش کی جا رہی ہیں ....اس جشن میں صرف ”وہ“ نہیں بلکہ”ہم“ بھی شریک ہیں .....یہ سوچے بغیرکہ آخر یہ جشن و طرب کیوں .....!؟یہ اہتمام کس لئے.....؟؟
کیا ہم نے سال گزارکر کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے!؟.....یا کوئی منزل سر کر لی ہے!!؟.....یا پھراس سے ہماری زندگی کی راہیں روشن ہو گئیں .....اور یک بیک ہم نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کرلیں ہیں؟؟
ہائے یہ غلا می بھی کیا چیز ہے.....؟؟ فائدہ و نقصان.....نفع وضرر.....سود وزیاں تک کے احساس کو زائل کر دیتی ہے.....
یہ غلامی انسان کو آہنی زنجیروں میں قید تو نہیں کرتی...لیکن اسکے عقل و شعور پر قابض رہتی ہے....اسکے احساسات وخیالات پر حکمرانی کرتی ہے......اسے اپنے اشاروں پر نچاتی رہتی ہے.....یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی.....
یہ اسیری ہی تو ہے کہ وہ عظیم نعمت جسکے متعلق کسی نے کہاکہ:
”وقت  برف کی مانند ہے .....اگر آپ چاہیں تو اسکا استعمال کریں .....ورنہ اسے یونہی ضائع ہونے کیلئے چھوڑ دیں“تو کسی نے کہاکہ”اگر آپ وقت کو برباد کر رہے ہیں .....تو یاد رکھئے!وقت بھی آپ کو برباد کر رہا ہے۔“اسی وقت کو کھو کر.....یعنی خود کا نقصان کر کے..... خسارہ اٹھا کر.....پونجی ضائع کرکے.....متاع گرانمایہ لٹا کر.....سرمایے کو ڈبو کر.....اپنا احتساب کرنے.....سرزد گناہوں کو خیر آباد کہنے.....ان گھڑیوں پر افسوس کرنے جو رائیگاں گذر گئیں .....ان لمحات پر رونے جن میں ہم نے اپنی آسائش کی خاطر دوسروں کو کلفت پہنچائی.....ان اوقات پر پشیمان ہونے جن میں خالق کی معصیت کا ارتکاب کیا گیا.. ہم جشن وطرب.....مسرت وخوشی.....اور فرحت وشادمانی کا اظہار کرتے ہوئے      .....مبارکبا د دینے اور وصول کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ ہمارا طریق تو نہیں .....ہمارے آئیڈیل کی یہ تعلیمات تو نہیں .....یہ صدیق و عمر کا ڈھنگ تو نہیں .....یہ ہماری منزل تک رسائی کی راہ تو نہیں .....یہ راستہ تو ہمیں کہیں اور لئے جارہاہے.....یہ تو قعر مذلت میں پہنچا  دینے والی راہ ہے..... یہ تو انکی راہ ہے جنکے با رے میں قرآن نے  خبردار کر تے ہوئے کہا:
”اور تم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے یہود اور نہ ہی نصاری یہان تک کہ تم انکی پیروی کر لو!!“(البقرہ:۰۲۱)
ہائے ہم کسے راضی کر رہے ہیں .....!؟کسکے سرور کے اسباب پیدا کر رہے ہیں!؟.کسکے طرز کو اپنا کر فخر کا احساس کر رہے ہیں!؟ہم اپنا آئیڈیل اور رہنما کسے تسلیم کر رہے ہیں .....!؟؟
انہیں جنہوں نے ہمارے لئے  چہار جانب بربادی کے دہانے کھول رکھے ہیں .....جو ہمیں تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے.....!ہماری بربادی ہی جنکی سب سے بڑی کام یا بی ہے.....!!
جنہوں نے    ع   روح محمد اسکے بدن سے نکال دو
کے شیطانی منصوبے کو پورا کرنے میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے.....!!؟
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں .....خودکو پہچانیں .....اپنی حیثیت کو جانیں ..... اپنے مقام سے واقف ہوں ..... اوریک بار پھر یہ ثابت کر دیں کہ
                خاص ہے تر کیب میں قوم رسول ہاشمی
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جنوری 2011ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں