ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

اسلامی کلینڈر کے تئیں یہ بے توجُّہی اور بے حسی‘آخر کیوں؟؟

لیجئے!روزوشب کے مسلسل سفر نے سال کی ایک اور منزل طے کر لی اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے 1435؁ھ سے1436؁ھ میں داخل ہو گئے لیکن نہ ہی ”ہپّی نیو ایئر“کی گونج سنائی دی نہ ہی مبارکباد و تہنیت کے سلسلے میں وہ گرم جوشی دیکھنے میں آئی جو عموماََ عیسوی سالِ نو کے آغازپر دیکھنے میں آتی ہے۔اس کی قطعاََ حمایت نہیں کی جا سکتی کہ اس موقع پر بھی اسی بے ہنگمی کا مظاہرہ کیا جائے اور وُہی طوفانِ بد تمیزی برپا کی جائے جو عیسوی سالِ نو کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہے مگر اس کی بھی تائید نہیں کی جا سکتی کہ اس با حرمت ماہ کی آمد اور اسلامی سالِ نو کے حوالے سے جس سرد مہری کا برتاؤ کیا اور جس بے توجہی کا احساس کرا یا جاتا ہے وہ بالکل بہ جا اور رَوا ہے۔
کم پڑھے لکھے‘غیر تعلیم یافتہ اور دین   و مذ ہب سے نا بلد افراد کو تو چھوڑ       ئیے؛نام نہاد ”پڑھے لکھے“ اور بزعم خود ”دین دار“لوگوں کو بھی اس کا علم نہیں کہ ماہ محرّم کا آغاز کب ہوا؛اس سے ہمارا‘ہماری اسلامی تاریخ کا کتنا گہرا رشتہ وربط ہے اوراسلامی کلینڈر کا تعلق ہماری عبادات اور مذہبی فریضوں سے کس قدر ہے؟بہت زیادہ تو ماہِ محرّم کو محض اس لئے جانا جاتا ہے کہ اس ماہ میں نواسہئ رسول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جامِ شہادت نوش فرمایاجس کے ”غم“ میں با ضابطہ باجے گاجے اور ناچ گانے کے ساتھ جلوس نکا لنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔یہاں موقع نہیں کہ اس ”عظیم الشان اسلامی جلوس“ کے تمام مفاسد کا احاطہ کیا جا سکے اور اس موقع پر خوش نما اور باعظمت لیبل لگا کرکیسے کیسے بدعات و خرافات کی ترویج کی جاتی ہے اور کس کس طرح دینِ اسلام کی دھجّیاں اڑائی اور بکھیری جاتی ہیں اُن کو ذکر کیا جا سکے۔
ہم‘خصوصاََہماری وہ نوجوان نسل جس کے ہاتھوں مستقبِل میں ہم ملک و ملت کی زمام سونپنے والے ہیں -جو ہمارے حال کے گراں قدر سرمایہ اور مستقبِل کے با ہنر معمار ہیں -اسلامی تاریخ اور اسلاف کی روایات سے اس درجہ ناواقف و غافل ہیں کہ اُنہیں اسلامی مہینوں کے نام کا بھی علم نہیں ہے۔بیش تَر نوجوان رمَضان‘محرّم اسی طرح دوسرے اِک آدھ مہینوں کے علاوہ کسی اورمہینے کے نام سے شاید ہی واقف ہوں‘بقیہ دیگر اسلامی مہینوں کے نام سے بھی ان کے کان ناآشنائے محض ہیں۔
یہ ہی نوجوان نسل جو”نیو ایئرنائٹ“کو اپنے احباب اور دوستوں کو ”وِش“کرنے میں بازی لے جانے کے لئے دیر رات تک اپنی نیند قربان کرکے اس لئے جاگتی رہتی ہے کہ جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں بارہ بجنے کا اشارہ دیں اور تاریخ تبدیل ہواسی کے ساتھ ہی اپنے متعلقین و احباب کو سب سے پہلے نئے سال کی مبارک باد میری جانب سے پیش کی جائے۔اس سلسلے میں مکمل مستعدی بَرتی جاتی ہے کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر غفلت طاری ہو جائے‘اور نیند کی آغوش میں چلے جانے کی وجہ سے ”نیوایئروِش“کرنے میں کوئی دوسرا مجھ سے سبقت لے جائے مگر اسی نوجوان نسل کومحرم کے چاند کے دیدار کے لئے نہ ہی پریشان دیکھا جاتا ہے اور نہ کسی چہرے پر تفکُّرو اضطِراب کی وہ لکیر بھی دیکھنے میں آتی ہے جسے”نیو ایئر نائٹ“کی فکر مندی کا عشرِعشیر بھی کہا جا سکے۔
انگریزوں کی غلامی اور نقالی میں اِنہوں نے اپنے تشخُّص اور شناخت کو اس طرح بھینٹ چڑھا دیاہے کہ اِنہیں اپنے لئے مسلمان ہونا اور خود کو مسلمان کہلانا بھی باعث ندامت اور وجہ ِذلت محسوس ہونے لگا۔ مغرب زدہ نو جوانوں پر”انگریزیّت“کا اس قدر غلبہ ہے کہ مسلمان ہونے کے باوُجود وہ اپنے ناموں میں انگریزی الفاظ کی آمیزش باعثِ ننگ وعار سمجھنے کے بجائے سببِ افتخار تصوُّر کرتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ”فیس بُک“اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرTauqeer Rock,Wicked Naziya,Fayyaz The Hulk,Stupid Rashid,Devil Minded Imranاور ایسے ہی متعدد ”آدھا تیترآدھا بٹیر“جیسی شکل والے نام دیکھنے میں آتے ہیں۔گویا پیدائشی انگریز نہ ہونے کے ارمان کو ”بھاگتے بھوت کی لنگوٹ ہی سہی“پر عمل کرتے ہوئے اس طرح کے بے ہودہ نام رکھ کر پورا کرنے کی ناکام سی کوشش کی جاتی ہے۔بھلا اُن کے ذہنی دیوالیہ پن کا کیا علاج جنہوں نے اپنی غیرت و خودداری ہی گِروی رکھ دیا ہو اور جنہیں:
ع مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
کاش اسلاف کی رِوایات کو یکسرفراموش کر دینے اوراُن کے نقوشِ حیات کو مکمل پسِ پُشت دال دینے والے اِن ”کالے انگریزوں“سے کوئی رازدارِرسول سیدنا حذیفہ بن الیمان (رضی اللہ عنہ) کی غیرتِ ایمانی سے لب ریز اس واقعے کو گوش گزار کر دے کہ جب اُس دور کی سُپر پاور حکومت کسریئ فارس کے دربار میں کھانا کھاتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے گرے ہوئے لقمے کو اٹھا کر کھانا چاہا تو اُنہیں اُن کے ہم نشین نے کہنی مار کر اِس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی کہ یہ امر فارسیوں کے لئے حرص پر دال ہونے کی وجہ سے معیوب تھا۔اِس کے جواب میں صحابی ئ رسول کی زبانِ حق نوا سے”کیا میں اِن بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے نبی کی سنت ترک کر دوں؟“کا جو اِلہامی جملہ نکلا وہ تاریخ کے اوراق پر سُنہرے حروف میں لکھ کر سدا کے لئے محفوظ کر لیا گیالیکن یہ بات باعث تاسُّف بلکہ صد تاسُّف ہے کہ اُن ہی نور پیکر‘بلند حوصلہ اور شاہیں جگر اسلاف کے ناہنجار اخلاف اُن کی حیاتِ با برکات سے استِفادہ کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید میں مگن نظر آرہے ہیں۔ اقبال مرحوم نے صد فی صد درست کہا تھا کہ:
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمیں پر آسماں سے ہم کو دے مارا
یہ ایک مسلَّمہ حقیقت اور ناقابل ِانکار صداقت ہے کہ کلینڈر کسی بھی قوم کی رِوایات کا غماز اوراُن کی تاریخ کا آئینہ دار ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام کے علاوہ دوسرے اقوام و مِلل میں بھی جو کلینڈر رائج ہیں وہ اُن کی تاریخ سے وابستہ اور اُن کی مذہبی رِوایات پر دال ہیں۔ٹھیک ایسے ہی اسلامی کلینڈر بھی اپنی مُمتاز حیثیت اور الگ شناخت رکھتا ہے۔چناں چہ اسلامی مہینوں کے نام  بھی اس کی عبادات و رِوایات کی جانب مُشیر ہیں اور ہمیں اسلامی تاریخ سے رُو شناس کراتے ہیں۔
کیا ایسے نازک وقت میں جب کہ اعداء ِاسلام نے چہار جانب سے ہمیں ہماری درخشاں و تابندہ تاریخ بھُلانے میں تن‘من‘دھن کی بازی لگا دیا ہے-کیوں کہ یہ ہی وُہ متاعِ بے بہا ہے جس سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ہم اپنے مستقبِل کی تعمیر و ترقی کے لئے سرمایہ فراہم کر سکتے ہیں -ہمارے اوپر لازم نہیں کہ ہم اپنی نسلِ نو کو اُن کی تاریخ سے آگاہ کریں  تاکہ اِن فریب خوردہ شاہینوں میں -کہ جن کے جہان کی روشنی ”مانگے  کے اجالوں“کی رہین ِمنت ہے-یہ احساس بیدار ہو سکے کہ
ع خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
تاکہ وہ اپنے خاص اسلامی رنگ و آہنگ کے ساتھ مغرب اور مغرب زدہ افراد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے کی جرأت کر سکیں کہ:
”کیا میں اِن بے وقوفوں کی وجہ سے اپنے نبی کی سنت ترک کر دوں!!؟“
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:اکتوبر 2014ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں