جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی جان!!

(اس ناچیز کے قلم سے نکلی ہوئی سب سے پہلی تحریر،جوالفاظ نہیں بلکہ جذبات پر مشتمل ہے)
رمضان کی آمد آمد تھی،شعبان کی آخری تاریخ تھی، میں تراویح کی تیاری کررہاتھا کہ اچانک  ایک جملہ نے میرے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا   .......انتقال کر گئیں۔
دماغ پر ہتھوڑے کی ضربیں پڑ نے لگیں، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا،چہرہ فق ہوگیا،پیروں تلے زمیں کھسک گئی،ہوش وحواس گم ہوگئے،دل ودماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
یعنی وہ ذات جو سراپا شفقت و محبت تھی،جسکی ڈانٹ میں بھی محبت کی شیرینی ہوتی تھی،جسکے احسانات کا بدلہ دنیا کا کوئی انسان ادا نہیں کر سکتا وہ عظیم ذات آج مجھے روتا بلکتا چھوڑ کر داعیئ اجل کو لبیک کہہ چکی تھیں۔
بیشمار مناظر کسی فلم کی طرح میرے آنکھوں کے سامنے آنے لگے کبھی مجھے امی کا وہ جملہ یاد آجاتا جوامی نے مجھ سے کئی بار کہا تھا    ”مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے“ مگر خداجانے وہ بات کیا تھی جسے میں سننے سے محروم رہ گیا تو کبھی میرے ذہن کے سامنے وہ منظر آجاتا کہ انکے انتقال سے تقریباََچاردن قبل انکے سر کو دبا رہا تھاکہ میں بے اختیار رونے لگا تھا تب امی نے مجھ سے کہا تھا کہ ”   بیٹے!مت رومیں ٹھیک ہوجاؤ نگی“ اور وہ بھی رونے لگیں تھیں مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ امی مجھ سے آخری بار مخاطب ہیں، اسکے بعد میں انکی آوازسننے کو ترس جاؤنگا۔بیشمار ایسی یادیں ہیں جو مجھے جھنجھوڑکررکھ دیتی ہیں۔مگر اس مختصرتحریر میں اسکا احاطہ ممکن نہیں۔
بہر حال  :جب میں گھر پہنچاتو قیامت برپا کردینے والا منظر میرے آنکھو ں کے سامنے تھا،ہر طرف سے آہ وبکا کی آواز آرہی تھی ایسے میں آنسو کوروکنا کسی طرح میرے بس میں نہ تھا،تقریبا سوا دس بجے جنازہ گھر لایاگیا،جنازہ کو دیکھتے ہی آنسو ئ ں کا سیلاب امڈ پڑا،ہرطرف آنسؤں کی برسات ہو رہی تھی۔حتی کہ تسلّی دینے والوں کی آوازیں بھی بھرّا ئی ہوئی تھیں اور انکی آنکھوں سے بھی آنسو کے چشمے ابل رہے تھے۔
بعد ازیں مجھے ابو کے پاس لے جایاگیا ابو کودیکھتے ہی میں لرزگیا،میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور میں بے اختیارپھوٹ،پھوٹ کر رونے لگا۔اس سے قبل ابو جب بھی گھر آتے تو میں انکا استقبال مسکراکر کیا کرتا تھا مگر آج معاملہ اسکے برعکس تھا۔
میں امی کے اوصاف وکمالات کیا بیان کرسکتاہوں انکے ہردلعزیزہونے کی گواہی جنازہ میں موجود جم غفیردے رہا تھا۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اپنے مخلوق کے دل میں بھی اسکی محبت ڈال دیتا ہے اوریہ جم غفیربھی بارگاہ خداوندی میں انکی قبولیت کا اعلان کررہاتھا اور آج جبکہ امی مجھ سے جداہو چکی ہیں اور بیشمار یادیں جومیرے لئے سرمایہ ئحیات ہیں چھوڑکر جاچکی ہیں۔میرے ذہن میں یہ شعر باربار گردش کرتا رہتا ہیکہ
موت کے آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جاکے تھوڑا سا سکوں پاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی اُن بچوں سے پوچھے جن کی مَر جاتی ہے ماں
٭٭٭
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:جون 2009ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں