ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

کرسمس:حقیقت خرافات میں کھوگئی

وہ قوم جو ایک بارانبیاء کے ساتھ استہزاء اور حدوداللہ میں کمی زیادتی کر کے گم راہ ہوئی تو دھیرے دھیرے اپنے محورسے ہٹتی ہی چلی گئی اور ہمیشہ کے لئے اپنے گردن میں گم رہی کا طوق ملامت  بطور قلادہ ڈال لیا۔پہلے اس نے اپنا پیغمبرکھویا پھر کتاب میں اپنی سہولت کے مطابق ترمیم کرتے رہے تاآنکہ اس کتاب میں خدائی آیات مغلوب اور انسانی عبارات غالب آگئیں اور وہ ”کتا ب منزّل“ان کی دست درازی اور خرد بردسے ”کتاب محرّف“میں تبدیل ہوگئی۔بھلا جب ان سے خدائی کتاب کی ہی حفاظت نہ ہو سکی تو وہ اپنے پیغمبر کی سیرت اور ان کے حالات کہاں تک محفوظ رکھ پاتے؟چناں چہ مرور ایام نے ان کے پیغمبر کی سیرت‘حالا ت اور واقعات کو اوراق گم گشتہ کی طرح زیر زمین دفن کر دیا۔پیغمبر کے بعد تین صدیاں بیت گئیں اور وہ اس حال میں آپہنچے کہ اس قوم کے کسی ایک فرد کو بھی پیغمبر کی تاریخ پیدائش کا علم نہ تھا لیکن پیغمر کے بعد جب کئی سو سال گزر گئے تو اچانک ان کی یوم پیدائش منانے کا سلسلہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ چل پڑا۔اس وقت اس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت تک اس قوم کے کسی ”دور بیں“کی نگاہ اور کسی ”دور رس“ کی نظر بھی نہ پہنچ سکی۔
ہوا یوں کہ ایک نوجوان نے ایسی مشعل تیار کی جوبغیر تیل ڈالے روشن رہتی‘صرف اس کے فلیتے میں آگ لگا دی جاتی اور اس کے بعدگھنٹوں اس سے روشنی حاصل کی جا سکتی تھی۔یہی وہ مشعل تھی جو بعد میں ”کینڈل“یا”موم بتی“کے نا م سے متعارف ہوئی۔اس مشعل کو امراء کے یہاں اور شاہی دربار میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔شاہی دربار کے لئے وہ مشعل بطور خاص تیار کی جاتی لیکن وہ مشعل گر نوجوان صرف اسی پر قانع ہونے کو تیار نہ تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ یہ مشعل ہر خاص وعام تک پہنچ جائے تاکہ اس کا کاروبار مزید ترقی کرے اور وہ اس کے ذریعہ اپنی دولت میں خاطر خواہ اضافہ کر سکے۔پھر اس نے اس کی ترویج و تشہیر کے مختلف طریقوں پر غور کیا‘اس کے ذہن میں متعددترکیبیں آئیں مگر پھر خود ہی اس کے ذہن نے ان تمام ترکیبوں کو مسترد کر دیابالآخر اس سلسلے میں اس نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کرنے کا سوچا جو قریبی چرچ میں بطور ”پادری“اپنے فرائض انجام دیا کرتا تھا۔پادری سے جب اس نے اپنے مسئلے کا حل دریافت کیا تو پادری نے جو ایک عقل مند اورتجربہ کار شخص تھا اس سے کہا:”تم اس مشعل کا رشتہ کسی طرح گرجاگھر اور عیسائیت سے قائم کردوکیوں کہ جو شے مذہب کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے اسے دوام مل جاتا ہے اور لوگ چوں کہ اس کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے اس کے بدلے وہ اگر پوری دنیا بھی دے دیں تو انہیں یہ قیمت ہیچ معلوم ہوتی ہے۔اگر تم اس کا تعلق مذہب کے ساتھ مربوط کرنے میں کامیاب ہو گئے توپھر دیکھنا تمہارا بیوپار کس طرح ترقی کرتا ہے اور تمہاری آمدنی سے تمہاری دولت میں کیسے بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے۔“آئیڈیا زبردست تھا۔ نوجوان کئی دنوں تک اس کے متعلق سوچتا رہا‘کئی روز کے بعد جب پادری سے اس کی ملاقات ہوئی تو اس نے پادری کے کان میں سرگوشی کی‘پادری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس کی آنکھوں میں چمک نظر آنے لگی۔وہ دن اتوار کا تھا اور تاریخ تھی ۵۲/دسمبر۔پادری نے اس دن ”سروس“کے دوران ایک اعلان کیا جسے حیرت کے کانوں سے سناگیا۔اس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: ”آج شام سورج ڈوبنے کے بعد تمام لوگ اپنی دیگر مصروفیات سے فارغ ہو کر دوبارہ چرچ آئیں۔اس وقت ایسے خصوصی انداز سے دعا کی جائے گی جو پوری ہونے سے پہلے ہی قبول ہو جائے گی۔“لوگ متحیر نگاہوں سے ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے لیکن چونکہ پورے قصبے میں پادری کی قدر کی جاتی تھی اور اسے احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اس لئے کسی نے اس کی بات میں دخل اندازی کر کے خود کولوگوں کا ہدف ملامت بنانا مناسب نہ سمجھا۔چناں چہ لوگ اس اعلان کے مطابق سورج ڈوبتے ہی جمع ہو گئے۔جب اندھیرا خوب پھیل گیا اور روشنی نام کو بھی نہ رہی توپادری نے ان تمام کے آگے ایک ایک موم بتی روشن کی پھر لوگوں سے کہا گیا کہ اب آنکھیں بند کر کے وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔یہ دعا گھنٹہ بھر ہوتی رہی۔دعا کے بعد انہیں واپس لوٹنے کو کہا گیا۔ان کی واپسی کے بعدپورے قصبے میں یہ دعا اور طرز دعا لوگوں کے لئے موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔اور یہ ہی تھا عالم عیسائیت کا سب سے پہلا ”کرسمس“جو حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے ۶۳۳ برس کے بعد ۵۲/دسمبر کو منایا گیا۔
اس تہوار کا آغاز روم میں ۶۳۳ عیسوی کو ہواپھر پادریوں کی وساطت سے اس کی رسائی دربار تک ہوئی یا خود بادشاہوں نے ہی پادریوں کو اس کی سرپرستی کا حکم دیااس کے متعلق تاریخ میں کوئی بات وضاحت ساتھ نہیں ملتی تاہم گمان اغلب یہ ہے کہ پادریوں کی خواہش پر ہی اسے سرکاری سرپرستی دی گئی ہوگی کیوں کہ ان دنوں تخت کا گرجا گھر کے ساتھ بڑا تال میل ہوا کرتا تھااور تخت کو اپنے غیرشرعی‘غیر قانونی‘غیر اخلاقی اور غیر انسانی ضابطوں کی توثیق اور ان کی تنفیذ کے لئے گرجا گھر کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ پادریوں سے بے حد مضحکہ خیزاحکامات کا اعلان کرواتے جن کے عوض پادری بھی ان سے سامان تعیش کی شکل میں ”ثمن قلیل“وصول کرتے۔بہ ہر حال اس دن پورے ملک میں سرکا ری تعطیل کر دی گئی۔شاہی خزانے کی رقم سے ہزاروں کی تعداد میں موم بتیاں خریدی جاتیں اور تمام گرجا گھروں میں انہیں جلایا جاتا۔
اس وقت تک یہ بات طے شدہ نہ تھی کہ ایا حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۵۲/دسمبر کو ہی ہوئی تھی یا کسی اور تاریخ کو؟وہ دن ہے اور آج کا دن”رومن کیتھولک“اور”پروٹسٹنٹ کلیسائی“۵۲/دسمبر‘مشرقی”آرتھوڈوکس کلیسائی“۶/جنوری‘اور”ارمینیائی کلیسائی“۹۱/جنوری کوحضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت مانتے اورکرسمس مناتے چلے آرہے ہیں۔حال آں کہ اس سلسلے میں کسی کے پاس کوئی مضبوط اور ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔اس حوالے سے دنیائے عیسائیت میں متعدد رائیں اورمتضاد روایتیں ملتی ہیں۔ تیسری صدی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ  کی جانب سے یہ رائے دی گئی تھی کہ اسے ۰۲/مئی کو منایا جاناچاہئے لیکن یہ تجویز اس لئے قبول نہ کی گئی کہ ۵۲/دسمبر کو ایک غیر مسیحی تہوار ”جشن زُحل(Saturnalia)“(جو رومیوں کا تہوار تھا اور ”راس الجدی“کے موقع پر ہوتا تھا‘اس میں بھی عیاشی وفحاشی کا بازار گرم رہتا)کو لوگ منانا ترک کردیں اور اس کی جگہ کرسمس رواج پا جائے۔(قاموس الکتاب‘ص۷۴۱)
جب کہ ”کینن فیرر“نے اپنی کتاب ”لائف آف کرائسٹ“میں میں اس بات کا اعتراف بے حد واضح انداز میں کیا ہے کہ مسیح کی تاریخ ولادت کا کوئی صحیح پتہ نہیں چلتا ہاں البتہ انجیل سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس رات ”بیت اللحم“میں گڈریے اپنے بھیڑوں کو لئے کھیتوں میں موجود تھے لیکن ”انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا“میں کرسمس پر آرٹیکل لکھنے والے نے اس پر زبردست انداز میں نہایت عمدہ تنقید کی ہے کہ دسمبر کا مہینہ تو یہودیہ میں سخت تیز بارش کا مہینہ ہوتا ہے‘ان دنوں کھلے آسمان کے نیچے کوئی گڈریابھیڑوں کے ساتھ کس طرح رہ سکتا ہے؟تقریباََ پانچ صدی بلکہ اس سے زائد عرصے تک حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت ۵۲/دسمبر نہیں سمجھی جاتی تھی۔۰۳۵ء میں ”سیتھیا“کے ایک راہب جو منجم(ستاروں کا عالم)بھی تھا اور اس کا نام ”ڈایوینس اکسیکز“تھا‘اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے تاریخ پیدائش کی تحقیق و تعیین کی ذمہ داری سونپی گئی‘چوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے صدیوں قبل ۵۲/دسمبر مقدس تاریخ تھی اور بہت سے دیوتاؤں مثلاََ ”سورج دیوتا“وغیرہ کی ولادت ان ہی تاریخوں میں مانی جاتی تھی اس لئے اس راہب نے ان اقوام کے درمیان جو ”سورج کی پجاری“تھیں‘عیسائیت کو مقبول بنانے اور ان کے ”تالیفِ قلب“کی خاطر ۵۲/دسمبر کو ہی حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت متعین کیا۔قرآن کریم کے اندر سورہئ مریم کے مطالعہ سے پتہچلتا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کو ”دردزِہ“کا احساس ہوا  تو اللہ تعالی نے ان کی رہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ:”کھجوروں کے تنے کو ہلائیں تاکہ ان سے تازہ پکی ہوئی کھجویں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر قوت حاصل کریں۔“اور فلسطین میں کھجوریں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی-اگست مین ہی پکتی ہیں۔اس سے بھی یہ بات کھل کر سامنے آ جا تی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم گرما کے وسط میں یعنی جولائی-اگست کے ہی کسی تاریخ میں ہوئی ہے اور آپ کی تاریخ پیدائش۵۲/دسمبر  جو کہ معروف ہے بالکل غیرمستنداور سرے سے ہی غلط ہے۔(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ‘ص۵۳۴)
حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ ولادت میں اس طرح کے اختلافات کا ایک انبوہ نظر آتا ہے اور خود مسیحی پیشوا بھی اس بارے میں متعدد رائیں رکھتے ہیں۔جب اس کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تو بھلا ایک موہوم اور متنازع تاریخ کو اس طرح کا جشن ”بپا“کرنا کیسے درست ہو سکتاہے جو خود مسیحی تعلیمات سے متصادم ہواور دین مسیحیت میں میں جس کی ایک”بدعت“سے زیادہ کوئی حیثیت نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس”رسمِ بد“ کی مخالفت ان کے بعض مذہبی پیشواؤں نے بھی کی مگر نقار خانے طوطی کی آواز کون سنتاہے؟
روم کے بعد جہاں اس ”بدعت“نے رواج پایاوہ جرمنی تھا۔اس وقت جرمنی باضابطہ مملکت یا سلطنت (جیسا کہ آج ہے)نہ تھی بلکہ یہ رومیوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا جہاں روم کے نمک خوار چھوٹے چھوٹے سرداروں کی حکم رانی تھی۔جرمنی کی تہذیب و ثقافت اور وہاں کی معاشرتی زندگی میں بھی رومیوں کے اطوار کا عکس ملتا اور ان کے طرز حیات کی جھلک دکھائی پڑتی تھی۔ان دنوں جرمن سردار کرسمس منانے روم جایا کرتے جہاں اس کا انعقاد زر کثیر خرچ کر کے بڑے پیمانے پر نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا جاتا۔جب وہ روم سے کرسمس منا کر لوٹتے  اور اپنے درباریوں کو وہاں کی روداد سناتے تو درباری انہیں بڑی حیرت واشتیاق کے ساتھ سنتے۔ایک بار ایک جرمن سردار اپنی بیماری کی وجہ سے روم نہ جا سکا تو اس نے اپنے علاقے میں ہی کرسمس کا اہتمام کیا۔اس دن کے بعد تمام جرمن قبائل اپنے قبیلے میں ہی کرسمس منانے لگے۔یوں روم کے بعد پہلے پہل کے اس خطے میں کرسمس منایا جانے لگا جو آج جرمنی کے نا م سے معروف ہے۔
”کرسمس ٹری“بھی جرمنوں کا ہی دیا تصور اور ان ہی کی ذہنی اختراع ہے۔یہ لوگ کرسمس کے موقع پر(نعوذباللہ) ان تمام واقعات کو ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے جو حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آئے تھے۔ ڈرامے میں قبیلے کی ہی کوئی لڑکی حضرت مریم علیہاالسلام کا روپ دھارتی  پھر خدا کے فرستادہ فرشتے کی شکل میں کوئی نوجوان آتا اورانہیں بچے کے پیدا ہونے کی خوش خبری سناتا۔پھر حضرت مریم علیہا السلام کا اضطراب‘گھبراہٹ اور ان کی بے چینی کی کیفیت کو دکھلایا جاتا۔اس دوران ایک درخت کو حضرت مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا‘وہ اپنی تنہائی اور بے کلی درخت کے سائے میں بیٹھ کر گزار دیتیں۔اس زمانے میں اس ڈرامے کے لئے عموماََزیتوں کی بڑی بڑی شاخیں استعمال کی جاتیں اور انہیں وہاں گاڑ دیا جاتا جہاں ان واقعات کو ڈرامے کی شکل میں دکھایا جانا ہوتا۔جب یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچتا اور لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگتے تو بطور تبرک اس کی ٹہنیاں اکھیڑ کرساتھ لے آتے اور اسے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے جہاں ان کی نگاہ  ہمیشہ ان شاخوں پر پڑتی رہے۔اس کی تزئین اور سجاوٹ کے لئے اس پر مختلف قسم اور متعدد رنگ کے دھاگوں کا استعمال کرتے۔رفتہ رفتہ یہی شاخیں  ”کرسمس ٹری“ کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں اس تدریجی عمل کے دوران کسی ”مہربان“نے اس پر بچوں کے لئے تحائف بھی لٹکا دئیے پھر یہ تحفے بھی ”کرسمس ٹری“کاحصہ بن گئے۔حال آں کہ ان واقعات کو سوانگ کی شکل میں پیش کرنے اور درخت کو کاٹ کے مصنوعی طور پر لگانے کی کوئی گنجائش مذہب عیسائیت میں بھی نہیں ہے اورخود انجیل کے اندر اس کی ممانعت موجود ہے۔
یوں تو کرسمس کا آغاز محض ایک مذہبی تہوار کی حیثیت سے ہوا تھا اور اس کی واحد عیاشی موم بتیاں تھیں اور بس۔لیکن دھیرے دھیرے اس میں ”کرسمس ٹری“شامل ہواپھر موسیقی نے اپنی راہ بنائی اور ہوتے ہوتے شراب اس کا جزو لازم بن گیا۔بس شراب کے داخل ہونے کی دیر تھی پھر یہ تہوار جو کبھی خالص مذہبی تہوار ہوا کرتا تھا‘ایک عیاشی کی شکل اختیار کر گیا‘ اس سے مذہب کی خوبو گم ہوتی چلی گئی اور یہ ”عیاشی“اس کے مذہبی عناصرپر اس طرح غالب ہوئی کہ اس کی مذہبی حیثیت سے بھی فزوں تر معلوم ہونے لگی گویا:
اس قدر دیواریں اٹھیں ایک گھر کے درمیاں
گھر ہو گیا گم خود ہی دیوارودر کے درمیاں
چناں چہ صرف کرسمس کے موقع پر جس قدر عیاشی‘فحاشی‘بے حیائی‘بداخلاقی‘ قوانین کی خلاف ورزی‘قتل وقتال‘شراب نوشی‘عورتوں کے ساتھ زدوکوب‘ان کی آبرو ریزی و عصمت دری اور اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے بعض اوقات ان کی تعدادپورے سال کے جرائم کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
جو شاخ نازک پہ بنے گا آشیانہ وہ نا پائے دار ہوگا
یہ حقیقت ہے کہ خود عیسائیوں کے درمیان ایسے افراد پیدا ہو چکے ہیں جوحضرت مسیح علیہ السلام کی یوم پیدائش منانے‘”کرسمس ٹری“کے سجانے اور اس موقع پر مسرفانہ طرزعمل اختیار کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کے موقف کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے خودکبھی کرسمس منانا ثابت نہیں ہے اور یہ ”بدعت“ان کے ساڑھے تین سو سال کے بعد وجود میں آئی ہے لہذا اس سے اس کی مذہبی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ اس اعتراض اور اس جیسے دیگر اعتراضات کے باوُجودپوری عیسائی دنیا اس موقع پر خلاف فطرت‘خلاف مذہب اور خلاف قانون کاموں میں آج بھی مصروف نظر آتی ہے اور آئندہ بھی آتی رہے گی۔اس  کی واحد وجہ وہ ”ملٹی نیشنل“کمپنیاں ہیں جنہوں نے اس تہوار کو ”اسپانسر“کررکھا ہے اسے ”پروموٹ“کر کے کروڑوں افرادسے اربوں ڈالر وصول کرتی ہیں۔جنہیں اپنی منفعت سے زیادہ کسی چیز کی فکر نہیں جو اپنے ایک ڈالر کے فائدے کے لئے ہزاروں افراد کو بھٹی میں جھونکنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔بد قسمتی سے کرسمس ان ہی سفاک ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔
اے چشم اعتبار ذرا دیکھ تو سہی!
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاریخ تحریر:دسمبر2013ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں